فرنگی محل، لکھنؤ کا وہ مردم خیز مقام ہے، جہاں علوم وفنون کے کئی نابغۂ روزگار اور یکتائے زمانہ علماکرام پیدا ہوئے۔ جن کے عظیم کارہائے نمایاں سے معاشرہ نے ہمیشہ فیض حاصل کیا۔ اسی خانوادۂ فرنگی محل میں حیات اﷲ انصاری کی شکل میں ایک درخشندہ ستارہ بیسویں صدی کے اوئل میں طلوع ہوا۔
حیات اﷲ انصاری کی شخصیت محض ایک ادیب کی نہیں تھی بلکہ انھوں نے ایک زبردست صحافی، ماہر تعلیم، منفرد ناول نگار، صاحب طرز افسانہ نگار، عظیم سیاسی رہنما اور مجاہد آزادی کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔ وہ جس ادارے سے وابستہ رہے اُسے فلک کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ وہ اردوکی بازیافت کے بڑے جیالے علمبردار تھے اور اس کے حقوق کی بحالی کے لیے تمام عمر محاز آرائی کرتے رہے۔ وہ مختلف اخبارات ورسائل کی ادارت سے وابستہ رہے، مثلاً ہندوستان، سب ساتھ، قومی آواز اورسچ رنگ وغیرہ۔ مگر ان کو شہرت دوام جو ملی وہ ’’قومی آواز‘‘ سے ہی ملی۔ روزنامہ ’’قومی آواز‘‘ کو صحافت کا سنگ میل بنانے میں انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت، ذہانت، لگن، انہماک، ایثار وقربانی سب کچھ لگا دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں قومی آواز انگریزی اخبار کے دوش بدوش کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ اردو کے صاحب طرز مدیرتھے ان کے لکھنے کا انداز بھی جدا گانہ تھا، وہ اس طرح اداریہ لکھتے تھے کہ بآسانی ہر شخص سمجھ لیتا تھا۔
حیات اﷲ انصاری ناول نویس بھی تھے ۔ انھوں نے لہو کے پھول، گھروندا، مدار، ٹھکانہ جیسے ناول لکھے۔ ان کا ناول ’’لہو کا پھول‘‘ عظیم ناولوں میں شمار ہوتاہے۔ مگر ان کا اصل میدان افسانہ نگاری تھا۔ افسانہ نگاری میں بھی وہ صف اول کے افسانہ نگار تھے۔ انھوں نے آخری کوشش، ڈھائی سیر آٹا، شکرگزار آنکھیں، بھرے بازار میں، شکستہ کنگورے، بڈھا سود خور، بارہ برس بعد، ماں اور بیٹا، موزوں کا کارخانہ، کمزور پودا، انوکھی مصیبت، سہارے کی تلاش ، جیسے شاہکار افسانے لکھے؛ جسے اردو ادب کا قابل قدر سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے افسانے سماجی مسائل اور نفسیاتی موشگافیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ حیات اﷲ انصاری کارل مارکس کے نظریۂ حیات سے بے حد متاثر تھے یہی وجہ ہے کہ غربت کی کشمکش ان کے اکثر افسانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ انسانی سماج کی کمزوری بے بسی اور بے جا رسم ورواج کو سرے سے ختم کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے افسانوں میں انسان کی پست حالی اور ان کے استحصال کی جو دردناک تصویر پیش کرتے ہیں وہ بے لاگ حقیقت نگاری کی ایک بہترین مثال ہے۔ ا ن کے افسانوں میں سماج کے دبے کچلے اور بے کس لاچار افراد حقیقی خد وخال کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
متذکرہ اوصاف کے نقوش ان کے تمام افسانوں میں نمایاں اور واضح نظر آتے ہیں۔ ان ہی اوصاف کی وجہ سے وہ اپنے معاصرافسانہ نگاروں میں ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔
حیات اﷲ انصاری کی فکر کا محور انسانیت ہے جو’’ماں بیٹا‘‘ اور ’’شکر گزار آنکھیں‘‘ کی کہانیوں میں واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ تقسیم وطن کے نتیجے میں ہونے والے دردناک و دلدوز فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں لکھے گئے یہ دونوں افسانے اردو کے شاہکار افسانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے دیگر افسانوں میںبھی مشاہدے، تخیل آفرینی اور فکری عناصر بے حد نمایاں اور فنکارانہ انداز میں ملتے ہیں۔ ان کے یہاں موضوعات میں انفرادیت اور تنوع بھی موجود ہے۔ جزئیات نگاری میں انہیں مکمل دسترس حاصل ہے۔ حیات اﷲ انصاری مغرب کے خوشہ چیں تونہیں ہیں لیکن مغرب کے افسانہ نگاروں کا فنی آرٹ ان کے افسانوں میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ان ہی وجوہات کی بنا پر ان کے افسانے فنی چابکدستی اور کردار نگاری کا عمدہ نمونہ تصور کیے جاتے ہیں۔ افسانہ نگاری کے میدان میں انھوں نے اپنے کسی پیش رو یا ہم عصر کے طرزتحریر کو اپنانے کے بجائے ایک منفرداسلوب اختیار کیا جو ان ہی سے مخصوص ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کی بنیاد ٹھوس حقائق پر رکھی ہے۔
’’آخری کوشش‘‘ اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ ہے جس میں انھوں نے حقیقت کو فن کے سانچے میں ایسی خوبی سے ڈھالا ہے جس کی مثالیں اردو افسانوں میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے اسے بقول پروفیسر صادق اردو کا پہلا مارکسی افسانہ تصور کیا جاتا ہے۔یہ افسانہ حیات اﷲ انصاری کا ایک اچھوتے موضوع پر لکھا گیا، منفرد اور اہم افسانہ ہے جس میں سماج کے پست اور کمزور طبقے کو علامت بنا کر اس کی بدحالی اور سماجی مجبوریوں کو دردمندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ایک ضعیف عورت کی بے حد دردناک حالات زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔
حیات اﷲ انصاری نے گھسیٹے کے کردار میں نوجوان طبقے کی بے روزگاری کے مسائل ،ان کی ناکامی، مجبوری، غربت و افلاس کے مراحل کو عبرت ناک انداز میں پیش کیا ہے یہ انداز بے لاگ حقیقت نگاری کی منھ بولتی تصویر بن کرقاری پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حیات اﷲ انصاری کا فنی کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی پوری توجہ حالات کی ستم ظریفی، سماجی تبدیلی اور انسانی فطرت پر مرکوز رکھی ہے۔ جس کا تھیم اور مرکزی خیال بے بسی، بے کسی اور محرومی ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کا خیال ہے کہ حیات اﷲ انصاری کو صف اول کا افسانہ نگار ثابت کرنے کے لیے ان کا افسانہ ’’آخری کوشش‘‘ بالکل کافی ہے۔
’’آخری کوشش اردو کے چند بہترین افسانوں میں سے ایک ہے، اس میں گہرائی معنویت، انسان کے بنیادی مسائل کا عرفان ہے۔ یہ افسانہ ایک طرح سے پریم چند کے آخری افسانہ ’’کفن‘‘ کی ترقی یافتہ شکل ہے اور اس میں بھی وہ ٹھہراؤ اور شعور ہے جو پریم چند کے افسانے کا خاصہ ہے۔‘‘
(اردو میں ترقی پسندادبی تحریک)
افسانہ ’’آخری کوشش‘‘ میں انھوں نے دو غریب بھائیوں گھسیٹے اور فقیرا کے ذریعہ انسان کی مجبوری و لاچاری کو پیش کیا ہے۔ پہلے حصے میں ریل کے سفر کے دوران دشواریوں کا ذکر ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریل کا سفر ایک طرح سے ان کی زندگی کا استعارہ بن چکا ہے۔ جو خود اپنی کہانی آپ سنا رہا ہے۔ ۲۵؍برس کے بعدوطن لوٹنے کی خوشی، اپنے دوست واحباب ، بچپن کے اعزا و اقربا، بھائی بہن، خاندان سے ملنے کی تمنا اسے خیال کے پروں سے نہیں، شوق کے پروں سے اڑا کر وطن پہنچا دیتا ہے وغیرہ لیکن یہاں بے روزگاری اسے جینے نہیں دیتی۔
آج کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو بیشتر لوگ ایسے ہی حالات سے گزررہے ہیں۔ روزگار کی طلب میںگھر سے کوسوں دوررہنے والے اس لیے گھر واپس آتے ہیں کہ شاید انھیں سکون کے کچھ پل میسر ہوجائیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ، گھریلو الجھنوں میں پھنس کر یا تو وہ پھر سے ترک وطن پر مجبور ہوتا ہے یا پھر معاشی تنگی کی وجہ سے ایسے اقدام کر بیٹھتا ہے جس کا تصور اس نے کبھی خواب وخیال میں بھی نہیں کیا تھا۔
گھسیٹے کی زندگی میں جب بے روزگاری، مفلسی اور بھوک مری کی انتہا ہوجاتی ہے تو وہ اپنے چھوٹے بھائی فقیرے کی مدد سے جینے کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس سے انسانیت شرمندہ ہوگی۔ مگر دونوں بھائیوں کے وہ خواب پورے ہوجائیں گے جس کے لیے وہ دونوںساری زندگی ترستے رہے ہیں۔ چنانچہ رات کے تیسرے پہر وہ دونوں اپنی ماں کو ٹوکرے میں ڈال کر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اور شہر کی جامع مسجد کے پاس فقیروں کی بھیڑ میں شامل ہوکر نعرہ لگانا شروع کر دیتا ہے ’’خدا ہر آفت و مصیبت سے بچائے‘‘ یہ سنتے ہی مسجد سے نکلنے والا ہر نمازی پیسہ دو پیسہ دیتا جاتا ہے۔اس طرح کم وقت میں ان کے پاس رنگ برنگ کے کھانے جمع ہوگئے اور روپے بھی۔ دونوں نے شکم سیر ہوکر کھانا کھایا ، ماں کو بھی کھلایا۔ گھسیٹے بہت خوش ہوا کہ آج زندگی میں اسے کسی کام میں کامیابی ملی ہے۔ وہ دل ہی دل میںسوچنے لگا کہ اگر ایک دن میں اتنے انواع و اقسام کے کھانے اور پیسے جمع ہوسکتے ہیں تو ایک مہینے میں کیا سے کیا ہوسکتا ہے۔ مستقبل کی حرص وطمع نے دونوں بھائیوں کو اندھا کردیا۔ ماں کو آمدنی کا ذریعہ سمجھ کر وہ دونوں اپنے قبضہ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس بات کو لے کر دونوں کے درمیان لڑائی ہوجاتی ہے اور گھسیٹے کے ہاتھوں فقیرا کا خون ہوجاتا ہے۔ گر چہ وہ فقیرا کو مارنا نہیں چاہتا تھا اس کا مقصد صرف ڈرانا تھا۔ ادھر چھینا جھپٹی کی تاب نہ لاکر ماں بھی ڈھیر ہوجاتی ہے۔ گھسیٹے حیران کھڑا تھا ۔ ایک طرف بھائی کی لاش تھی اور دوسری جانب ماں کی ………
افسانہ آخری کوشش کا مطالعہ بیدار مغز با شعور قارئین کے ذہن و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کیا زندگی کی لاچاری، بے بسی، مفلسی اور فاقہ کشی انسانی رشتوں میں اس طرح بھی حائل ہوسکتی ہے۔ سچی، منفرد، بے لاگ حقیقت نگاری یہی ہے کہ جب بے بسی کے عالم میں انسان پر سارے دروازے بند ہوجاتے ہیں تو پیٹ کی آگ اس کو ہر وہ عمل کرنے پر مجبور و آمادہ کرلیتی ہے جس کے اخلاقیات کی کتاب میں کوئی جگہ نہیں۔ افسانہ نگار نے بے رحم زندگی کی سچائی کی نقاب کشائی میں ایسے دلدوز مناظر پیش کیے ہیں جس سے انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ حیات اﷲ انصاری نے اپنے قاری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ آج اعلیٰ،ا شرف، بلند مراتب ذات کے کوئی معنی نہیں رہ گئے ہیں۔ مادیت پرست دنیا میں یہ فرق اب بالکل زائل ہوتا جارہا ہے۔
صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو افسانہ ’’آخری کوشش‘‘ اس عہد کے نوجوانوں کی بے بسی، لاچاری، بے چارگی اور محرومی کی منھ بولتی تصویر ہے۔ حیات اﷲ انصاری نے گھسیٹے کے وسیلے سے پس ماندہ طبقات کے احوال کو اس طریقے سے سامنے لا کر رکھ دیا ہے کہ اس کی بے رونق زندگی، پژ مردہ آرزوئیں اور مظلومیت نگاہوں میں پھر جاتی ہے۔
حیات اﷲ انصاری کی یہ کہانی مفلوک الحال دو بھائیوں کی داستان غم ہے، جنہیں زندگی کے ہر موڑ پر صرف غم ، مصیبت کا ہی منھ دیکھنا پڑا۔ مسلسل ناکامیوں اور مجبوریوں نے وہ دن دکھا یا کہ جس ماں کے پیٹ میں پیر پھیلایا جس کی ممتا کے سائے میں پروان چڑھا، اسی کو بھیک منگی کا ذریعہ بنا ڈالا اس پوری کہانی کا فنی جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ حیات اللہ انصاری حقیقت نگار ہی نہیں اپنے عہد کے عظیم نباض بھی ہیں اور انھوں نے اس زمانے کی سماجی کمزوریوں، زندگی کی سچائیوں، حقائق او ر واقعات کو نہایت فنکاری سے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ انسانوں کی محرومیاں، حالات کا جبر، سماج کی تفریق اور جنسی استحصال اور معاشرہ کی بے رحمیوں اور نا انصافیوں کے خلاف کھل کر وہ اپنے افسانوں میں علم بغاوت بلندکرتے ہیں۔
اسی طرح ان کا ایک افسانہ ’’کمزور پودا‘‘ ہے جو سماجی برائیوں کے پس منظر میں تخلیق کیا گیاہے۔ انھوں نے اس افسانے میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح صاحب ثروت لوگ غریب لڑکیوں کو اپنے دام فریب میں پھنسا کر اس کی عزت و آبرو سے کھیلتے ہیں اور پھر وہ معصوم بے بس لڑکیاں ہی اس گھنونے عمل کی ذمہ دار قرار پاتی ہیں، جو ان بڑے لوگوں کی باتوں میں آکر اپنی عزت و آبرومالک اور امیر زادوں پر قربان کر چکی ہوتی ہیں۔ کہانی کا خاکہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے:۔
’’کنیز گاؤں کی ایک غریب ومفلس گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ اسی گاؤں کے ایک زمیندار کے گھر پر کام کاج کرتی ہے۔ جہاں اسے ہر روز طعن وتشنیع، ڈانٹ پھٹکار اور کبھی کبھی تو مار بھی کھانی پڑتی ہے۔ زمیندار کا لڑکا اسے اپنے ہوس کا شکار بنانا چاہتا ہے۔ شروع شروع میں تو وہ ڈرتی ہے؛ لیکن آہستہ آہستہ اسے سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے۔اچانک ایک دن شبیر اسے اپنے ہوس کا شکار بنا ہی لیتا ہے۔ اس واقعے کے ڈیڑھ ماہ بعد شبیر گاؤں چھوڑ کر شہر اپنی کالج پڑھائی پوری کرنے چلا جاتا ہے۔ اور اپنی تعلیم میں مصروف ہوجاتاہے۔ جانے کے وقت وہ دسمبر کے مہینے میں آنے کا وعدہ کرتاہے، لیکن دسمبرمیں وہ واپس نہیں آتا ہے۔ ادھر دن بدن کنیز کی حالت خراب ہونے لگتی ہے۔ دھیرے دھیرے ا ن کے ماں باپ سب کچھ بآسانی سمجھ لیتے ہیں۔ باپ بہت چلاتا ہے اور کہتا ہے کہ بڑے گھروں میں لڑکیوں کو نوکرانی نہیں بنانا چاہیے۔ کنیزیا نے منھ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا، باپ اس کو بہت مارتا ہے؛ لیکن ماں کو اس کی حالت پر ترس آجاتا ہے، وہ ترس کھا کر بیٹی کو بچا لیتی ہے۔ کنیز کے بطن سے ایک ننھا منا بچہ پیدا ہوتا ہے جب زمیندار صاحب کو صورت حال کا پتہ چلتا ہے تو وہ اعلان کرتا ہے کہ ایسے بد کردار عورت کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیںہے۔ لاچار ہوکر کنیز کو اس کے ماں اور باپ خالہ کے گھر چھوڑ آتے ہیں۔ شبیر کو اپنے برابر کی بہت مالدار عورت مل گئی اور بہت جلد دھوم دھام سے ان کی شادی ہونے والی ہے۔ اور زمیندار شبیر کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔‘‘
(کمزور پودا)
’’کمزور پودا‘‘ حیات اﷲ انصاری کا ایک کامیاب اور با مقصد افسانہ ہے۔ اس افسانے میں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صاحب ثروت لوگ کس طریقے سے ایک مفلس، کمزور، معصوم اور بھولی بھالی لڑکی کی عزت و آبرو سے کھیلتے ہیں اور سماج میں برائیاں پھیلاتے ہیں اور جب حقیقت سامنے آتی ہے تو مورود الزام مفلسوں اور معصوموں کو ہی ٹھہراتے ہیں۔
افسانہ نگار کا مقصد امیر طبقے کی عیاشیوں، مکاریوں، مکر وفریب، استحصال اور ظلم وستم سے عوام کو واقف کرانا ہے۔ یہ افسانے حقیقت نگاری کے بہترین مرقع ہیں۔ ان میں سماج کے دبے کچلے افراد کی زندگی کی سچائیاں ، تلخ حقائق اور واقعات و نفسیات کی باریکیوں اور ناانصافیوں اور بے رحمیوں کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔
آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حیات اﷲ انصاری صاحب مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت اور کارناموں کا مکمل احاطہ ناممکن ہے۔ انھوں نے اپنی تحریر کے ذریعہ ہمیں یہ احساس دلایا کہ زندگی خود ایک بیدار حقیقت سے عبارت ہے، دکھ ، درد، زندگی کے تلخ حقائق ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کے سبھی فن پاروں میں سچی فنکاری کا جوہر پوشیدہ ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے یقیناًمشعل راہ ثابت ہوں گے۔ جب تک دُنیا میں انسانیت زندہ رہے گی ان کے عظیم کارناموں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
rizwanalauddin1985@gmail.com
٭٭٭