شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
’تحقیقی تبصرے ‘کتاب میں گیان چند جین اور سید محمد محسن کے قاضی عبدالودود کے سلسلے سے لکھے گئے دو مضامین کے جواب میں ظفر کمالی نے باالترتیب 39اور 22صفحات پر مشتمل دو ایسے تبصرے تحریر کیے ہیں جنھیں ادبی اصطلاح میں ’’جوابِ آں غزل ‘‘ کے طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ 61صفحات کسی مکمل کتاب پرتبصرے کی شکل میںنہیں سامنے آئے ہیں بلکہ مذکورہ مصنّفین کے محض ایک ایک مضمون کا یہاںجائزہ لیا گیا ہے۔اسی طرح کتاب کا پہلا مضمون’ غلطی ہائے مضامین : ایک تبصرے پر تبصرہ ‘ کو بھی بہ نظرِ توجہ دیکھنا چاہیے۔ یہ بھی 19صفحات پر مشتمل تبصرہ ہے جس میں عطا کاکوی کی کتاب پر گیان چند جین کے تبصرے کو بحث کا حصّہ بنایا گیاہے۔ان تینوں مضامین میں قاضی عبدالودوداور گیان چند جین ہر دو مضمون کاعنوان بنے ہیں ۔ قاضی عبدالودود سے ظفر کمالی کی خصوصی د ل چسپی کے پیشِ نظران سے یہ توقّع تھی کہ وہ گیان چند جین کے بے جا اعتراضات کا مدلّل جواب دیںگے۔ اسی طرح گیان چند جین نے عطا کاکوی کی کتاب پر جو تبصرہ کیا،وہاں بھی ایمان اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیاہے۔ ظفر کمالی نے ان تینوں تبصروں میں تحقیق کے جس معیار تک پہنچنے میں کامیابی پائی ہے، اس کے عنوانات حسب ذیل ہو سکتے ہیں:
(i)جس موضوع پر انھوں نے تبصرہ کیا، اس پرمصنّف ہی کی طرح ان کی علمی گرفت قائم تھی۔
(ii)مبصّر نے مصنّف کے تمام مآخذ کا براہِ راست مطالعہ کیا اور ان کی آزادانہ جانچ پرکھ میں بعض تسامحات کی تلا ش میں کا میابی پائی۔
(iii)ظفر کمالی نے مصنّفین کے دماغ کے د اخل کو پڑھنا چاہا جس سے یہ پتا چل سکے کہ ان مضامین کے لکھنے کا حقیقی مقصد کیا تھا اور اسی طور پر انھوں نے ان کے جوابات تیار کرنے کی کوشش کی۔
(iv)مصنّفین کی غایت سمجھنے کے بعد ظفر کمالی نے ان کے نفسیاتی پہلوؤں پر بھی توجہ رکھی۔ اتفاق یہ تھا کہ ایک مضمون توماہرِ نفسیات سید محمد محسن کا ہی لکھا ہواتھاجس پر انھیں گفتگوکرنی تھی۔ان تبصروں میں جگہ جگہ نفسیاتی مطالعے کی خصوصیات نظر آتی ہیں۔یہ خصوصیت عام طور پر محقّقین کے ہاںموجو دنہیں۔
(v)مبصر کی حیثیت سے ظفر کمالی نے صرف اس مصنّف کے ایک مضمون اوراس کے مآخذ تک خود کو محدود نہیں رکھابلکہ اس مصنّف کی دوسری کتابوں ، اس پر لکھے گئے دیگر مضامین،کتب اور دوسرے متعلقات کو بھی بہ طور ِ ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ۔
(vi)ظفر کمالی نے اختلافی امور میں ایک ماہر وکیل کی طرح جرح کی ہے۔ جرح کا انداز عالمانہ تو ہے ہی مگر حریف کو ثبوت کے بل بوتے پر مکمل طور سے زیر کر دینے کا انداز دیدنی ہے ۔ جرح کے معاملے میں ظفر کمالی نے قاضی عبدالودود جیسے بیرسٹر اور محقق کے اندازِ گفتگوسے فیض اٹھایا۔ قاضی عبد الودود کا مشہور مضمون ’ غالب کا ایک فر ضی استاد ‘ آپ ملاحظہ کریں اور پھر ظفر کمالی کی ان تحریروں کو پڑھتے ہوئے انھیں داد دیں ۔
(vii)ان تبصروں میں حقائق کا ترتیب واربیان بھی لکھنے والے کے علمی سلیقے کو ظاہر کرتاہے ۔ اینٹ در اینٹ تعمیر کا انداز فکر ی طور پر مستحکم ذہن کی سا لمیت او ر موضوعاتی تیقّن کا ثبوت ہے۔
(viii)یہ تبصرے اتنے سادہ اور شگفتہ لہجے میں مکمل ہوئے ہیں جنھیں پڑھتے وقت قاری روانی کے ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ کہیں کہیں ظریفانہ جملے کسی تحقیقی امر کی وضاحت میں بھی سامنے آتے رہتے ہیںجن کے سہارے طول طویل مضامین پڑھنے میںذہنی دباو کم ہوجاتاہے اور کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی ۔
(ix)تحقیق گر چہ خشک تر دائرئہ علم ہے مگر ظفر کمالی کے ان تحقیقی تبصروںمیں وہ خشکی ان کے دلائل ، جرح کے انداز و اسلوب کی شگفتگی سے ازخود ختم ہوجاتی ہے ۔
ظفر کمالی نے اپنے مذکورہ تینوں تبصروں میں گیان چند جین اور سید محمد محسن کے مضامین کے ساتھ ساتھ ان اصحاب کی دوسری تحریروں سے بھی ضروری مواد حاصل کر کے علمی جرح کے کام کو حتمی شکل عطا کی ہے۔ اس سلسلے سے انفرادی مشاہد ے سے لے کر ذاتی خطوط ، مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تمام وسائل بحث کا حصّہ بن گئے ہیں ۔ ظفر کمالی کے کسی تبصرے کا مطالعہ کیجیے ؛ کہنے کو ایک مضمون کا جائزہ ہے مگر حوالہ جات اور مآخذ کی فہرست بنائی جائے تو بات سیکڑوں وسائل کے استعمال تک پہنچ جاتی ہے۔ جرح کے اس انداز سے پڑھنے والے کو یہ فائدہ حاصل ہو تاہے کہ جس بات پر تنازعہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، وہ بات بآسانی باطل ہوجاتی ہے ۔ان تبصروں سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ گیان چند جین اور سید محمد محسن دونوں نے انصاف اور ایمان سے پَرے جاکر ادبی تحقیق کے کام کو اپنی تحریروں سے نقصان پہنچایا ۔
گیان چند جین کے بارے میں یہ مضامین بیس اور تیس برس پہلے لکھے گئے تھے ۔ پچھلے برسوں میں جب گیان چند جین کی ایک کتاب ’’ ایک بھاشا: دو لکھاوٹ ، دو ادب ‘‘ چھپ کر سامنے آئی تو شمس الرحمان فاروقی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے گیان چندجین کی فرقہ پسند ذہنیت کے بارے میں وضاحت کی تھی مگر ظفر کمالی نے ۱۹۹۰ء میں لکھے اور ۱۹۹۵ء میں چھپے اپنے مضمون میں گیان چند جین کے فرقہ پرست دماغ کو سمجھنے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ان کی کتاب ’’کھوج ‘‘ اور ’’ اردو کی نثری داستانیں ‘‘ سے دو اقتباسات نقل کر کے ظفر کمالی نے اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچادیا تھا کہ گیان چند جین کس حد تک فرقہ پرست اور تنگ نظرہیں ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ شمس الرحمان فاروقی ہی نہیں ،اور بھی دوسرے ناقدین گیان چند جین کی فرقہ پرست ذہنیت کو ایک عرصے تک سمجھ نہیںپائے اور انھیں محقق ،شاعر اور ادیب کے ساتھ ساتھ کھُلے ذہن کے انسان کے بہ طور اہمیت دیتے رہے ۔ سب نے ان کی جی کھول کر وقت ، بے وقت حوصلہ افزائی فرمائی جن میں خود شمس الرحمان فاروقی بھی شامل ہیں ۔ مگر آج سے بیس پچیس برس پہلے ظفر کمالی نے ان کی تحریروں کے بطن میں اُ تر کر ایک فرقہ پسنداور تنگ نظر شخص کی تلاش میں کامیابی پائی تھی ۔ یہ ظفر کمالی کی تلاش و تحقیق کی خوبی کا مظہر تو ہے ہی مگر ان کی فکر ی پختگی ، ذہنی سا لمیت اور سماجی سروکار کا بھی اس سے ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔ ظفر کمالی نے گیان چند جین کے جن دو اقتباسات کو ان کی فرقہ پسند ذہنیت کو سمجھنے کے لیے بہ طورِ مثال پیش کیے ہیں، انھیں ہم قارئین کی عمومی دل چسپی کے لیے یہاں درج کر نا چاہیں گے :
< ’’ایسا ہرگز نہیں۔ اردو جملے میں اصل مفہوم کے حامل الفاظ عربی فارسی کے ہوتے ہیں، ہندی الاصل الفاظ محض امدادی حیثیت رکھتے ہیں۔ عربی فارسی الفاظ پالکی نشیں امیر ہیں، ہندی الفاظ پالکی بردار کہار۔ عروض میں ہندی الفاظ کے آخری الف، وائو، ی گرائے جاسکتے ہیں لیکن عربی فارسی الفاظ کے نہیں کیوں کہ اس طرح عربی فارسی الفاظ کی عظمت مجروح ہوتی ہے۔ یہ الفاظ اتنے مقدس ہیں کہ انھیں ہندی الفاظ کے ساتھ فارسی عطف و اضافت کی سلک سے نہیں باندھا جاسکتا۔ اردو میں عربی فارسی الفاظ کا احساسِ برتری ڈھکا چھپا نہیں۔‘‘ (کھوج ؛ص-۳۶۵)
< ’’بوستانِ خیال کی بے مہار ہوس کاریاں نوجوان دماغ پر زہر یلا اثر کرتی ہیں۔ کفار کو انتہا سے زیادہ غلیظ ، شہوت پرستی میں مبتلا دکھایا ہے ۔اس کا اثر بھی الٹا ہوتا ہے کیونکہ مصنّف کے پھوہڑپن نے اس باب میں اتنا غلو کیا ہے کہ اس سے نہ صرف ان کرداروں سے نفرت ہوجاتی ہے بلکہ بوستانِ خیال سے، اس کے خیال سے اور اردو ادب تک سے نفرت ہوجاتی ہے۔‘‘ (اردو کی نثری داستانیں، ناشر اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ ۱۹۸۷ء؛ ص- ۸۷۰)
ان اقتباسات سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گیان چند جین کے فرقہ پرست مزاج کوواشگاف کرنے والوں میں سب سے پہلے ا فرادمیں ظفر کمالی کا شمار ہوتا ہے ۔اسی کے ساتھ انھوں نے اپنی علمی اور سماجی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ان باتوںکو بھی ظاہر کرنے کی کو شش کی کہ گیان چند جین کس انداز میں اردو معاشرے میںفرقہ پرستانہ ماحول کو فروغ دے رہے ہیں۔قاضی عبدالودود اور مسعودحسن رضوی کے سلسلے سے گفتگو کرتے ہوئے گیان چند جین شیعہ اور سنّی ہونے کے سبب دونوں کے ممدوحین کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیںاور یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قاضی عبدالودود سنّی شعرا کی تعریف کرتے ہیںاور مسعود حسن رضوی کے پسندیدہ ادبی کردار شیعہ حضرات ہیں۔ادبی معاملوں میں اس انداز کی تنگ نظری شاید ہی کسی مصنّف کے یہاںدیکھنے کو ملے۔جب مصنّف کا دماغ زہر آلود ہو اور علمی معاملات سے لے کر ذاتی زندگی کے احوال تک میں تنگ نظری کے عوامل بنیادی حیثیت اختیار کر جائیں تو اسیے مصنّف کی نبض پر انگلی رکھی ہی جانی چاہیے۔
ظفر کمالی نے گیان چند جین کے صرف نقطۂ نظر اور مذہبی کجروی پر روشنی نہیں ڈالی بلکہ ان کی چھوٹی بڑی ہر بات پر پوری سنجیدگی کے ساتھ جرح کرنے کی کوشش کی ہے۔مسائل جتنے الجھے ہوئے اور پیچیدہ تھے، ظفر کمالی نے سادہ زبان اور کہیں کہیں حسبِ ضرورت ظرافت کی پھوار کا مظاہرہ کرتے ہوئے بحث مکمل کی ہے۔’’قاضی عبدالودود اور گیان چند جین‘‘ مضمون میں ظفر کمالی کا تحقیقی شعوراپنے عروج پر ہے۔یہ بات حیرت انگیز ہے کہ تیس برس کی عمر کا کوئی نوجوان مصّنف کس عالم میں ایسا دقیق اور با اعتبار تحقیقی مضمون لکھ سکتا ہے؟وکالت میں شہادت اور شہادت کی مخالف وکیل کی طرف سے Cross Examinationکا جو معیاری انداز ہو سکتا ہے ،اسے ظفر کمالی نے اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ایک بھی بنیادی معاملے کو درگذر نہیںکیا۔ممکن ہے، گیان چند جین نے جس بات کو سرسری انداز میں اور زیادہ سوچے سمجھے بغیر پیش کر دیا ہو مگرظفر کمالی نے اس کے ہر پہلو کی جانچ کی ۔اس جانچ پرکھ میں ظفر کمالی نے جس قدر دلائل جمع کیے ہیں، وہ ان کی حیرت انگیز خورد بینی کا ثبوت ہیں۔دلائل کی تلاش کے مرحلے میںوہ دور دراز کے بالکل انجانے یا غیر متعلّق مآخذ تک پہنچ کر وہاں سے کام کی باتیں ڈھونڈ لاتے ہیںجن کے اطلاق سے حقیقت کا نیا پہلو سامنے آ جاتا ہے۔انھوں نے گیان چند جین کی دیگر تحریروں، قاضی عبدالودود کے مضامین اورخطوط کے ساتھ رسائل وجرایدیا کتابوں میں شایع شدہ ہم عصروںکی تحریر اور عمومی مراسلات وغیرہ کو بہ طورِ ثبوت استعمال میں لایا ہے ۔اخبارات میں چھپے کسی ایک تراشے کو بھی، اگروہ ان کے موضوع سے متعلّق ہے، استعمال کر نے سے خود کوروک نہیں پاتے۔گیان چند جین کے اس مضمون پر غور کرتے ہوئے انھوں نے جن مآ خذ کو بہ طورِ حوالہ پیش کیا ہے ،ان کی فہرست کچھ یوں ہو سکتی ہے۔
۱-ماہ نامہ’ سہیل‘(نومبر۱۹۸۶ء)
۲-ہفتہ وار’ ہماری زبان‘(۱۹۸۷ء)
۳-’اردو انٹرنیشنل‘(کینیڈا)
۴-گیا ن چند جین کا مجموعۂ مضامین’ پرکھ اور پہچان‘(۱۹۹۰ء)
۵-معاصر کاقا ضی عبدالودود (اگست ۱۹۷۶ء)
۶-انجمن اساتذۂ اردوجامعاتِ ہند(لکھنؤ کانفرنس)کا مجموعۂ مقالات
۷ -رہبر تحقیق
۸-خدا بخش جرنل(نمبر ۱۹۷۷ء)
۹-رسالہ’ شاعر ‘کاگوشۂ گیان چندجین( مئی جون ۱۹۸۱ء)
۱۰-تلاش وتعبیر(رشید حسن خاں)
۱۱-اخلاقیاتِ تحقیق(مضمون ):گیان چند جین
۱۲-احمد جمال پاشا کا کتا ب نما،نئی دہلی میں شایع شدہ مضمون( جنوری ،۱۹۸۹ء)
۱۳-ڈاکٹر نذیر احمد کا مضمون(۱۹۹۱ء)
۱۴-شاعر، ممبئی ستمبر اکتوبر۱۹۸۳ء (گوشۂ کالی داس گپتا رضا)
۱۵-عظیم آباداکسپریس،پٹنہ شمارہ۸ اگست ۱۹۸۲ء
۱۶-مناظر عاشق ہرگانوی کے خط کے سلسلے سے قاضی عبدالودود کا جواب
۱۷-مارچ ۱۹۸۷ء کے’ سہیل‘ میں مناظر عاشق ہرگانوی اور قاضی عبدالودود کے خطوط
۱۸-ورودِ مسعود :مسعود حسین خاں
۱۹-ہماری زبان ،نئی دہلی کے شمارہ بابت۱۸ مئی۱۹۸۹ء میں شامل گیان چند جین کا مضمون
۲۰-’معلم اردو‘لکھنؤبابت دسمبر۱۹۸۹ء میں گیان چند جین کا شایع شدہ مضمون
۲۱-’معاصر‘شمارہ ۳۷میں قاضی عبدالودودکا مضمون
۲۲-’نکات الشعرا‘:میرؔ (اولین اشاعت اور ۱۹۳۵ء کی اشاعت)
۲۳-’معیار ‘،پٹنہ مارچ ۱۹۳۶ء
۲۴-شادعظیم آبادی اور ان کی نثر نگاری:وہاب اشرفی
۲۵-اردو نثر کے ارتقا میںشادعظیم آبادی کا حصّہ:وہاب اشرفی۱۹۸۵ء
۲۶-اردو ادب، علی گڑھ اکتوبر دسمبر۱۹۵۱ء(حسرت نمبر)
۲۷-قاضی عبدالودود( محقق اور دانش ور)۱۹۸۳ ء
۲۸-اصولِ تحقیق:قاضی عبدالودود ،رسالہ ’آج کل‘،نئی دہلی
۲۹- ہفتہ وار ’ہماری زبان‘، نئی دہلی ۱۵مئی ۱۹۸۹ء
۳۰-ہفتہ وار ’ہماری زبان‘نئی دہلی ۸ جولائی ۱۹۹۸ء
۳۱-ہفتہ وار’ ہماری زبان‘۲۲جولائی ۱۹۹۸ء
۳۲-تحقیق کا فن :گیان چند جین ۱۹۹۰ء
۳۳-معیارو تحقیق: پٹنہ،۱۹۹۱ء میں شامل سید حسین احمد کا مضمون
۳۴-تحقیقی مضامین : مالک رام(۱۹۸۴)
۳۵-’کربل کتھا‘مرتّبہ مالک رام اور مختار الدین احمدآرزو
۳۶-تلامذۂ غالب :مالک رام (۱۹۸۴)
۳۷-دیوانِ غالب صدی ایڈیشن مرتّبہ مالک رام
۳۸-کالی داس گپتارضا کے نام حمیرا خاتون کا خط
۳۹-قاطع برہان اور رسائل متعلقہ؛قاضی عبدالودود
۴۰-دیو انِ جوشش:قاضی عبدالودود (۱۹۴۱ء)
۴۱-قطعاتِ دلدار:قاضی عبدالودود(دوسرا ایڈیشن۱۹۹۲ء)
۴۲-دیوان ِ رضا:قاضی عبدالودود
۴۳-تذکرۂ شعرامصنّفہ ابن ِ امین اللہ طوفان
۴۴-دیوانِ غالب نسخۂ عرشی
۴۵-اردو کی نثری داستانیں:گیان چند جین
۴۶-اردو مثنوی شمالی ہند میں : گیان چند جین
۴۷-ابتدائی کلامِ اقبا ل مر تّبہ گیان چند جین
۴۸-باغ و بہار مرتّبہ رشید حسن خاں
۴۹-فسا نہء عجائب مرتّبہ رشید حسن خاں
۵۰-سحرالبیان مرتّبہ رشید حسن خاں
۵۱-مصحفی کے دیوانِ ہشتم کا عکسی متن(۱۹۹۵ء)
۵۲-رسالہ معاصر، پٹنہ بابت جولائی۱۹۶۲ء(تعین ِ زمانہ:قاضی عبدالودود)
۵۳-اردو تحقیق :مسائل اور تجزیہ :رشید حسن خاں(۱۹۹۰ء)
۵۴-تحریر انجم کا تحقیقی مقالہ(۲۰۰۵ء)
۵۵-اردو میں اصولِ تحقیق مرتّبہ ایم سلطانہ بخش(۱۹۸۸ء ،پاکستان)
۵۶-مصحفی اور ان کا کلام :ابو اللیث صدیقی
۵۷-قاضی عبدالودود بہ حیثیت محقق :شوکت سبز واری
۵۸ -آبِ حیات :محمد حسین آزاد
۵۹-اردو تنقید پر ایک نظر:کلیم الدین احمد
۶۰-قاضی عبدالودود:تحقیقی وتنقیدی جائزے مرتّبہ نذیراحمد
۶۱-گوپی چند نارنگ بہ حیثیت ماہر لسانیات:گیان چند جین،الفاظ ،علی گڑھ جنوری تا اپریل ،۱۹۸۷ء
۶۲-کتاب نما ،دہلی ، جولائی۱۹۹۰ء میںشایع شدہ یوسف ناظم کا مضمون بہ عنوان ’ان کے مفروضے میرے معروضے‘
۶۳-فی زمانہ :یوسف ناظم
ظفر کمالی کے اس شہکار مضمون کے یہ تمام بنیادی اور ثانوی مآ خذ ہیں۔ یہاں’’ قاضی عبدالودود اور مَیں‘‘عنوا ن کے گیان چند جین کے مضمون کا ظفرکمالی نے تنقیدی و تحقیقی اعتبار سے جائزہ لیا ہے۔گیان چند جین کی تحریر میں بعض باتیں قابلِ اعتراض تھیںجن کا ظفر کمالی کو جواب دینا تھالیکن جواب دینے کے مرحلے میں انھوں نے جس انداز سے اپنے دائرۂ کار کو وسعت عطا کی ہے،اس سے ان کے علم کی گہرائی اور متعلقہ مسائل کی جانچ پرکھ کا ایک حتمی انداز دیکھنے کو ملتا ہے۔اردو تحقیق کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو کسی زمانے میں بھی اتنی گہرائی میں جاکراپنے علم کی روشنی پھیلانے والے افرادکچھ زیادہ تعداد میں نظر نہیں آتے۔ ظفر کما لی نے ا س مضمون میں واقعتاعلمی مجاہدہ کیاہے اور گیان چند جین کو اپنے علم سے پورے طور پرزیر کرنے میں کامیابی پائی ہے۔اس مضمون کے آغاز اور انجام میں ظفر کمالی کے چند جملے کچھ اس انداز سے سامنے آئے ہیںجن سے ان کی ظرافت میں دلچسپی از خود ظاہر ہوجاتی ہے،ملاحظہ کریں:
< ’’جین صاحب کے مضمون کو پڑھتے ہوئے ایک خیال کئی مرتبہ ذہن میں آیا۔ انھوں نے ’’فراقؔ سے میری ملاقاتیں ‘‘ نامی مضمون میں لکھا ہے کہ دورانِ طالب علمی میں وہ اپنے ایک ساتھی رام گوپال باجپئی کے ساتھ ہوسٹل میں شورش کرانے کے سچے الزام میں نکالے گئے تھے (پرکھ اور پہچان ص۲۱۰)۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہوسٹل کے بعداب وہ ادب میں بھی شورش برپا کرنا چاہتے ہیں؟‘‘(ص -۱۰۹)
< ’’غلط فہمیوں کی دھول کس طرح اڑائی جاتی ہے اور جرأتِ بے جا کسے کہتے ہیں، اس کی عبرت ناک مثال کے لیے گیان چند جین کا مضمون ’’قاضی عبدالودود اور میں‘‘دیکھیے۔‘‘(ص-۷۱)
< ’’ادھر گیان چند جین کی نگارشات میں ان کی پاکیِ داماں کی حکایت اکثر بیان ہورہی ہے۔بعض اوقات یہ اتنی دراز ہوجاتی ہے کہ شکوک و شبہات از خود سر ابھارنے لگتے ہیں۔قاضی صاحب پر اپنے مضمون میں بھی انھوں نے اپنی انصاف پسندی،دیانت داری،بے تعصّبی اور انکساری کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔‘‘(ص۔۱۷۱)
ظفر کمالی کی اس کتاب کا آغاز عطا کاکوی کی کتاب ’’غلطی ہاے مضامین‘‘پر گیان چند جین کے تبصرے پر جوابی تبصرے سے ہوا ہے۔یہ مضمون بھی ظفر کمالی کی عمیق نگہی اور دقیق نظری کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔گیان چند جین نے جس تکبّرِ علمی سے عطا کاکوی کے علمی نتائج سے بہ بانگِ دہل اختلاف کیا تھا،ظفر کمالی نے اپنی تحقیقی نگاہ سے اس بات کو ثابت کرنے میںکامیابی پائی ہے کہ اکثر وبیشتر گیان چند جین ہی غلط ہیںاور عطا کاکوی درست۔اس بحث میں ظفر کمالی نے جو ثبوت پیش کیے ہیں،ان سے عجیب وغریب صورت پیدا ہوتی ہے کہ گیان چند جین اپنے علمی نتائج متعین کرتے ہوئے اکثر غلط جگہ پر کھڑے نظر آتے ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جین صاحب معاملات کی گہرائی سے چھان بین نہیں کرتے ۔ظفر کمالی نے اپنی بحث میں ثبوت کے ساتھ مندرجہ ذیل نتائج ظاہر کیے ہیں:
۱-گیان چند جین بنیادی مآخذ تک پہنچنا ضروری نہیں سمجھتے اور اپنے حتمی نتائج بر آمد کر لیتے ہیں۔
۲-قطعاتِ تاریخ سے وہ صحیح طریقے سے سال کی گنتی تک نہیں کر سکتے۔
۳-کمزور مآخذ پر انھیں زیادہ بھروسہ ہوتا ہے اور بنیادی مآخذ سے کئی باروہ دور کارشتہ قائم کرلیتے ہیں۔
۴-گیان چند جین جوشِ بیان میں غیر متعلّق امور پرزیادہ انحصار کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے تحقیقی نتائج تک پہنچنے میں ان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔
۵-قیاس اور اندازوں کو گیان چند جین کے یہاں بنیادی حیثیت حاصل ہے جس کے سبب ان کی تحقیق کا معیار غیر تشفی بخش ہوتا ہے۔
۶-تلاش و جستجو میں علمی مشقت کی ضرورت ایک محقق میں ہو نی چاہیے ،وہ گیان چند جین میں کم ہے۔
۷-کسی بات کی پیش کش کے لیے محقق میں ذمہ دا ری کا احساس ہونا چاہیے ،گیان چند جین میں اس کی شدید کمی ہے۔
۸-گیان چند جین کی تحقیق میں مناظرے کا رنگ در آتا ہے جس کی وجہ سے اکثر اُن کا اسلوب ِ تحقیق، تحقیق کے عمومی معیا ر سے گرجا تا ہے۔
’غلطی ہاے مضامیں ‘ کے سلسلے سے ظفر کمالی کے اس تبصرے سے ان کی تحقیق کی گہرائی ،علمی جرح کا سلیقہ اور حقائق کی تلاش کے لیے مقدور بھر جستجو کرنے کی مثال کے طور پر دو امور پیشِ نظر ہیں جو حقیقتاً اس مضمون کے چھٹے اور ساتوے حصّے میں درج ہو ئے ہیں۔راجا رام نارائن موزوں کے نام سے منسوب مشہور شعر :
غزالاںتم توواقف ہو ،کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
اور ناسخ کے ’دیوانِ سوم ‘کے سلسلے سے ظفر کمالی نے عطا کاکوی اور گیان چند جین کی تحقیق پر نئے ماخذکی تلاش اور ان سے اپنے مباحث اور نتائج کو جس انداز کی مضبوطی عطا کی ہے،اس سے ظفر کمالی کا تحقیقی اعتبار قائم ہو تا ہے۔یہاں یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مبصّر کے پاس وافر علم نہ ہو تو وہ کس انداز سے غلطیاں کرتا ہے اوراسی طرح اگر اس کی جانچ نہ کی جائے تو حق کے ساتھ کھڑا ہو نا مشکل ہو جائے گا۔عطا کاکوی کے تحقیقی کامو ںسے جس انداز میں گیان چند جین نے تحقیقی نتائج اخذ کر لیے تھے،اگر ظفر کمالی نے مناسب طریقے سے علمی مداخلت نہ کی ہو تی تو غلط فہمیاںعا م ہو سکتی تھیں۔ظفر کمالی کے اس مضمون سے گیان چند جین کا تحقیقی اعتبار متزلزل ہو جا تا ہے اور ظفر کمالی کا علمی سکہّ بیٹھ جا تا ہے۔
ظفر کمالی کی اس کتاب کا ایک عجیب و غریب مضمون ’قاضی عبد الودود کا سوانحی خا کا اور ڈاکٹر محمد محسن ‘ہے۔تحقیق میں حقائق سے بحث کی جا تی ہے اور نتائج تک پہنچنے کے لیے بہت سا رے پوشیدہ احوال کی تلاش و جستجو کرنی پڑتی ہے۔مگر اس مضمون میں ظفر کمالی نے ان کاموں سے آگے بڑھ کر اردو آبادی کے سب سے بڑے ماہرِ نفسیات کا مکمل نفسیاتی مطالعہ بھی پیش کر دیا ہے۔ ظفر کمالی کا بنیادی کام تو یہ تھا کہ سیّد محمد محسن کے آٹھ صفحات پر مشتمل مضمون کا جائزہ لیں مگر انھوں نے اس کے دائرۂ کار کو مزید وسعت اس وجہ سے بھی دی کیوں کہ محسن صاحب کی تحریر کے بین السطور سے سر گوشیاں ہو رہی تھیں؛ ان کا جواب بھی لازم تھا۔ ظفر کمالی نے بر سبیل تذکرہ محمد محسن کے دو سابقہ مضامین ’شخصیت کی تشکیل میں حافظہ کی کرشمہ سازی‘ (آج کل ، دہلی،جون ۱۹۷۸ء ) اور ’عملِ تحقیق کی قاضی عبدالودودی روایت‘(زبان وادب پٹنہ، جنوری ، اپریل ۱۹۹۲ء ) کی مثال پیش کر کے یہ بتا دیا ہے کہ قاضی عبدالودود کو سیّد محمد محسن پسند نہیں کرتے۔ ظفر کمالی نے کلیم الدین احمد پر لکھے گئے سیّد محمد محسن کے مضمون مطبوعہ’سہیل، گیا اکتوبر ۱۹۸۳ء کابھی ذکر کیا ہے ۔ قاضی عبدالودود کے خود نوشت سوانحی خاکے پر بھی لکھے گئے مضمون کو انھوںنے اسی سلسلے کی کڑی تسلیم کیا ہے۔ ظفر کمالی نے یہاںجونتیجہ اخذ کیا ہے، وہ صرف ایک محقق اور حقائق کے جویا شخص کا نہیں بلکہ واقعتاً یہاں وہ ماہرِ نفسیات بھی نظر آتے ہیں۔ ذیل کے اقتباس میں ظفر کمالی کس انداز سے سید محمد محسن کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے اپنے تحقیقی نتائج تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں، میں دیکھا جا سکتا ہے:
’’مجھے لگتا ہے کہ محسن صاحب کو قاضی اور کلیم صاحب کی شہرت سے کچھ چڑ سی ہے۔ حالانکہ وہ نفسیات کی دنیا میں خاصی شہرت رکھتے ہیں اور وہ بجا طور پر اس کے مستحق بھی ہیں لیکن شاید اس سے ان کے جذبۂ انا کی تسکین نہیں ہوئی اور وہ اردو ادب کے میدان میں بھی اپنی خدمات کا اعتراف چاہتے ہیں۔ ناموری کی اس چاہت میں وہ قاضی صاحب اور کلیم صاحب سے آگے نکل جانا چاہتے ہیں۔ چوں کہ اردو ادب سے متعلّق ان کی تحریریں قاضی اور کلیم کے معیار کو نہیں پہنچ سکیں اس لیے وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوگئے۔ یہ وہی احساسِ کمتری ہے جس کا اعتراف خود محسن صاحب کو ہے اور جس کا ذکر قبل کیا جاچکا ہے۔ محسن صاحب کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ وہ نفسیات کے بڑے عالم ہیں اور یہ کوئی معمولی شرف کی بات نہیں ہے۔ اس میدان میں قاضی صاحب اور کلیم صاحب کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٹھیک اسی طرح اردو ادب کے میدان میں قاضی اور کلیم صاحبان کا مقابلہ ا ن کی تحریریں کبھی نہیں کرسکتیں۔ اردو ادب میں ان کے مقابلے میں سکہ تو انھیں دونوں حضرات کا چلا ہے اور چلتا رہے گا۔‘‘ [تحقیقی تبصرے: ص ۱۳۱-۱۳۰]
اس مضمون میں بھی ظفر کمالی کی تحقیقی مشقت دیکھنے سے تعلّق رکھتی ہے جہاں انھوں نے قریب اور دور کے ضروری مواد کو اپنے مطالعے کا حصّہ بنایا۔ معاملہ ایک مختصر مضمون کے جواب کا تھا مگر انھوں نے سید محمد محسن کی دیگر نثری اور شعری کتب تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ ہر موضوع سے متعلّق جہاں جہاں مواد موجود تھا، وہاں سے حقائق کی تلاش کی اور انھیں کچھ ایسے سلسلے سے اپنے مضمون کا حصّہ بنایاکہ ایک طرف قاضی عبدالودود کے تعلّق سے محمد محسن کی الزام تراشیوں کا بطلان ہوتا جاتا ہے اور دوسری طرف نئے حقائق کی بنیاد پر قاضی عبدالودود کی شخصیت کے خدوخال روشن ہو جاتے ہیں۔ محسن صاحب کے ایک ایک لفظ سے جرح کر کے شعور اور لا شعور پر سے ساری گرد جھاڑ کرظفر کمالی نے ایک نئی اور حقیقت پسندانہ صورتِ حال کا اظہار کیا ہے۔
Safdar Imam Quadri
Department of Urdu,
College of Commerce, Arts & Science, Patna: 800020, Bihar India
Email: safdarimamquadri@gmail.com