محمد شکیل استھانوی
اردو کے مشہور و معروف صاحب طرز ادیب وشاعر، مصنف و مؤلف ، محقق و مبصر، انشاء پرداز و نقاد اور مقالہ نگار وتاریخ گو پروفیسرڈاکٹر حضرت سید شاہ طلحہ رضوی برقؔ کے نام کی واقفیت صرف برصغیر ہی نہیں رکھتا بلکہ ا س نام کو عالمگیر شہرت ومقبولیت حاصل ہے۔ اردو وفارسی زبان و ادب کی بے ریا شناوری کرنے والوں میں آپ کا شمار انگلی پرگنے جانے والے چند ادیبوں وشاعروں میں سے ایک ہے۔ آپ اردو و فارسی کے فی البدیہہ اور برجستہ شاعر ہیں ۔ تاریخ گوئی میں آپ کو مہارت تامہ حاصل ہے اور قطعۂ تاریخ لکھنے والے معدودے چند شعرا میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ قطعۂ تاریخ جتنی عمدہ آپ اردو زبان میں کہتے ہیں ، اتنی ہی خوبصورت فارسی زبان میں بھی تحریر کرتے ہیں۔ آ پ کواردو و فارسی نظم و نثر میں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ آ پ کو شعری و ادبی ذوق وراثت میں ملا ہے اور آپ اپنے وقت کے نابغہ روز گار شاعروںا ور ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی تحقیق وتنقید کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ آپ کی شخصیت اور آپ کی نگارشات اردو و فارسی زبان و ادب میں صد رشک تو ہیں ہی ساتھ ہی سرمایۂ افتخار بھی ہیں۔
حضرت برقؔ کے والد بزرگوار افتخارالواعظین ، عمدۃ المشائخین حـضرت علامہ سید شاہ محمدقائم رضوی چشتی نظامی قتیلؔ دانا پور ی علیہ الرحمہ کا بھی اپنے وقت کے عظیم شاعروں اور صوفیوں میں شمار ہوتا تھا ۔ ان کی تین شادیاں ہوئیں۔ پہلی شادی حکیم میر حسن علی زمیندار آرہ کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا انتقال چھے سال کے بعد ہوا اور ان کے بطن سے تولد ہونے والے بچے کا ایامِ طفلی میں ہی انتقال ہوگیا۔آپ کے والد بزرگوار کی دوسری شادی جموانوں پیربگہہ شریف کے رئیس میر افاضت حسین کی دختر نیک اختر سے ہوئی ، وہ بھی دوتین سال کے بعد داغ مفارقت دے گئیں۔ بعد ازاں حضرت برقؔ کے والد کی تیسری شادی پھلواری شریف میں حضرت بی بی محمودہ خاتون بنت سید شاہ محی الدین مجیبی سے ہوئی۔ حضرت بی بی محمودہ خاتون کی بطن سے سات بیٹے اور دو بیٹیاں تولد ہوئیں۔ ان میں حضرت طلحہ رضوی برقؔ وسید شاہ نظام الدین رضوی کے علاوہ دوبہنیں عامرہ خاتون اور بشریٰ خاتون حیات ہیں۔ بقیہ صغر سنی میں ہی اللہ کے پیارے ہوگئے۔
حضرت برقؔ کی والدہ محترمہ حضرت بی بی محمودہ خاتون مجیبی پھلواروی رحمۃ اللہ علیہا بھی اپنے وقت کی یگانہ روز گار شاعرہ کے ساتھ ساتھ ولیہ بھی تھیں۔ انھیں بھی شعروسخن کا عمدہ ذوق ورثے میں ملا تھا۔ حضرت برقؔ کو صرف والد محترم سے ہی شعروسخن میں شرف تلمذ حاصل نہیں رہا بلکہ ان کی والدہ محترمہ نے بھی انھیں بچپن ہی میں عروضی نکات سے واقفیت کرادی تھیں۔ جب ہوش سنبھالا تو والد بزرگوار نے اپنی انگلیوں کے سہارے تصوف و سلوک اور شعروسخن کی منزلیں طے کرائیں اور بچپن میں والدہ محترمہ نے انھیں لوریوں کی شکل میں اپنی گنگناتی ہوئی آواز میںنعتیہ کلام ہی سنایاہوگا۔ حضرت برقؔ کی ولادت جمادی الاول ۱۳۵۷ھ مطابق جنوری۱۹۴۱ء میں پھلواری شریف کے محلّہ بائولی میں واقع نانیہالی مکان میں ہوئی ۔ آپ کا تاریخی نام ناصر رضوی ہے جس سے ۱۳۵۷ھ برآمد ہوتا ہے۔لیکن خانقاہ فریدیہ کے سجادہ نشیں حضرت سید شاہ نعمت اللہ قادری پھلواری نے رسم ’’چھٹی‘‘ کے شب قلم وشمشیر پکڑوانے کی رسم کی ادائیگی کے وقت فرمایا کہ ’’زبیر کے بھانجے کو طلحہ ہونا چاہیے‘‘ اس کے بعد سے ہی آپ ناصر رضوی کے بجائے طلحہ رضوی ہوگئے اور اسکول میں آپ کا نام سید طلحہ رضوی لکھوایا گیا۔
حضرت برقؔ کی پرورش وپرداخت خالص علمی، دینی ، خانقاہی اور صوفیانہ ماحول میں ہوئی۔ آپ نے والدہ محترمہ سے ناظرہ قرآن شریف کے علاوہ فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں اور والد بزرگوار سے عربی کی ابتدائی کتابوں کے ساتھ ’’گلستاں‘‘، ’’بوستاں‘‘، مامقیما‘‘، ’’کریمائے سعدی‘‘ اور ’’پندنامہ عطار‘‘ پڑھی۔ بعد ازاں والد بزرگوار نے انھیں انگریزی کی طرف مائل کیا۔ حضرت برقؔ کے والد بزرگوار کوعربی وفارسی کی طرح انگریزی زبان پر بھی دسترس حاصل تھا۔ انھوں نے انگریزی میں اسلامیات پر چھے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ آپ کے والد پٹنہ کمشنری آفس میں کانفنڈ ینشیل سکشن کے انچارج تھے۔ انگریزی زبان میں دسترس کی وجہ کرانگریز افسر بھی ان سے متاثر تھے۔
حضرت برقؔ کا داخلہ ۱۹۴۸ء میں انگریزی اسکول کے پانچویں کلاس میں کرایا گیا۔ بعد ازاں آپ نے میٹرک ۱۹۵۵ء میں کیا۔ اسی درمیان آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ۱۹۵۴ء میں ہوگیا جس کی وجہ سے آپ ملول خاطر رہنے لگے اور آپ نے میٹرک تھرڈڈویژن سے پاس کیا۔ مقامی بی ایس کالج سے آپ نے آئی اے ۱۹۵۷ء میں کیا اور پھر پٹنہ کالج پٹنہ سے بی اے آنرس ۱۹۶۰ء میں کیا اور ایم اے اردو ۱۹۶۲ء میں اورایم اے فارسی ۱۹۲۳ء میں فرسٹ کلاس امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی درمیان آپ نے سینٹرل گورمنٹ کے ڈیفنس اکائونٹس پٹنہ کے لیے ٹسٹ امتحان پاس کیا اور آپ کی بحالی اپر کلاس آڈیٹر کے عہدہ پر ہوئی۔ چند ماہ کے بعد آپ نے اس عہدہ سے استعفیٰ دے دیا چونکہ اسی درمیان آپ کی تقرری نوادہ کے کنہائی لال کالج میں ارد و لکچرر کی حیثیت سے ہوگئی۔ حضرت برقؔ اپنی تعلیمی لیاقت میں اضافے کے پیش نظر تاج الشعراء حضرت اکبر دانا پوری کی حیات و شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری ۱۹۷۰ء میں حاصل کی۔ آپ نے مشائخ شعرائے فارسی بہار پرفارسی زبان میں ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس پر پٹنہ یونیورسٹی نے ۱۹۷۹ء میں ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی۔ بعد ازاں آپ نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے سی اوپی فارسی میں ۱۹۷۷ء میں کیا اور تہران (ایران) سے سی ٹی پی سی ۱۹۹۶ء میں کیا۔ حضرت برقؔ کی تقرری اردو فارسی لکچرر کی حیثیت سے ۷ستمبر۱۹۶۳ء کوایچ ڈی جین کالج آرہ میں ہوئی۔ پھرآپ صدر شعبہ بھی بنائے گئے اور اس عہدے پر ۱۳فروری ۱۹۸۰ء تک برقرار رہے۔ آپ نے ریڈکی حیثیت سے ۱۴فروری ۱۹۸۰ء تک اپنی خدمات کو بخوبی انجام دیا۔ بعد ازاں آپ نے بحیثیت پروفیسر و صدرشعبہ جین کالج آرہ اورپھر ویرکنور سنگھ یونیورسٹی ، آرہ میں ۴فروری ۱۹۸۵ء سے ۳۱ جنوری ۲۰۰۱ء تک اپنے فرائض کو انجام دیا۔ بالآخر مورخہ ۲فروری ۲۰۰۱ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ اس درمیان آپ نے سینکڑوں طلبا وطالبات کے ذہن و فکر کو فارسی و اردو زبان و ادب سے روشناس کرایا۔ آپ کی نگرانی میں فارسی میں سات اور اردو میں ۲۳اسکالر ز نے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ایک نے ڈی لٹ کیا۔
(۱)اردو کی نعتیہ شاعری مطبوعہ۱۹۷۴ء (۲) غورفکر(تنقیدی مضامین) ۱۹۷۶(۳) نقدوسنجش(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) ۱۹۸۲ء (۴) شاہ اکبر داناپوری (تحقیق) ۱۹۸۵ء (۵) ارزشِ ادب(تنقیدی مضامین) ۱۹۹۵ء (۶) شایگاں(مجموعۂ غزلیات) (۷)شہاب سخن(رباعیات)۱۹۹۶ء (۸)Mysticiam in our poetry ۱۹۸۴ء(۹) قطعۂ تاریخ(فارسی)۲۰۰۷ء (۱۰) اربعین(نعتیہ مجموعہ)۲۰۰۸ء (۱۱) سہرے ہی سہرے ۲۰۰۸ء (۱۲) عشرہ مبصرہ ۲۰۰۹ء(۱۳) مناصب التواریخ ۲۰۱۲ء(۱۴)ورق ورق آئینہ ۲۰۱۴ء اور (۱۵) سجادہ نشینان بہار منصہ شہود پر آچکی ہے۔
حضرت برقؔ کی سات کتابیں (۱)تذکرہ شعرائے دانا پور (۲)عرفائے سخن سراے بہار (فارسی) (۳)آئینہ تصوف (۴)اذکارجمیل بہ تذکار قتیلؔ (۵)قاموس تاریخ گوئی (۶)منتشرات (نظمیں) اور(۷)افصح التواریخ (اردو وفارسی)تشنہ طبع ہیں۔علاوہ ازیں آپ نے چار کتابوں کو مرتب بھی کیا جن میں(۱) گلستانِ سخنِ محمودہؔ(مجموعہ نعت)۱۹۵۶ء(۲)تجلیات قتیلؔ(دیوان اردو) ۱۹۶۵ء (۳) خورشید سحر(دیوان فارسی) ۱۹۶۸ء (۴)ضیاء العروس از حضرت قتیلؔ ۱۹۸۶ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئیں جن سے فارسی واردو کے ادبا شعرا مستفید ہورہے ہیں۔ پروفیسر برق کے تقریباً پچیس سے زائد تحقیقی وتنقیدی فارسی کے مقالات ہندو پاک اورایران کے رسائل ومجلّات کی زینت بن چکے ہیں۔ اسی طرح تقریباً ڈیڑھ سو اردو مضامین ، ادبی و مذہبی مقالات ہند و پاک کے رسائل وجرائد میں اشاعت پذیر ہوئے ۔ نیز یہ کہ سترہ سے زائد نثری و شعری کتابوں میں آپ کی لکھی تقریظیں بھی شایع ہوچکی ہیں اور آپ نے ریاست وبیرون ریاست سے آنے والی کتابوں پر تبصرے بھی کیے ہیں۔ تبصرہ نگاری کا سلسلہ آپ نے اس وقت شروع کیا جب آپ بی اے آنرز کے طالب علم تھے اور آپ کے تبصرے ماہنامہ’’اشارہ‘‘ پٹنہ میں باضابطگی سے شائع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ماہنامہ’’ صبح نو‘‘پٹنہ، ’’صنم‘‘ پٹنہ، ماہنامہ ’’ساغرنو‘‘ پٹنہ، ’’رفتارنو‘‘دربھنگہ، ’’قافلہ‘‘پورنیہ، ماہنامہ ’’ سریر‘‘ گیا، ماہنامہ ’’کتاب‘‘ لکھنؤ، ’’نیادور‘‘لکھنؤ، ’’شاعر ‘‘ ممبئی، ’’آج کل ‘‘دہلی، ’’ہماری زبان‘‘ دہلی، ’’مریخ‘‘ پٹنہ، ’’زبان و ادب‘‘پٹنہ، ’’الانصار‘‘ حیدرآباد، اور ’’نعت رنگ‘‘ کراچی وغیرہ جیسے معتبر رسائل وجرائد میں بھی آپ کے تبصرے و تنقیدی مضامین باضابطگی کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں اور محبان اردو سے داد تحسین حاصل کرتے رہے ہیں۔پروفیسر صاحب دوران طالب علمی سے ہی علمی و ادبی تحقیقی کاموں میں لگے رہے اور اپنی علمی وادبی صلاحیتوں میںوسعت و فروغ دیتے رہے ہیں۔ الفاظ کی پرکھ اورجملوں کی ساختیات پر بھی ان کی گہری نظرہے۔ ان کی تحریریں مقفع و مسجع ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ان کی تحریریں غیر جانب داراور مبنی برحقیقت ہوتی ہیں۔ آپ کے بارے میں پروفیسر عبدالقادر جعفری ، صدر شعبہ عربی و فارسی ، الٰہ آباد یونیورسٹی تحریر کرتے ہیں:
’’وہ ایک ادیب انشاء پرداز نقاد اورکہنہ مشق شاعر ہیں۔ ان کی نظم و نثر دونوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ادبی دلچسپیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی نگاہ دور رس اور تجربہ عمیق ہے۔ تحقیق و تنقید اور تلاش وجستجو کے رموز سے باخبر ہیں شعریات کی پرکھ کی صلاحیت بھی قدرت نے بہت اچھی عطا کی ہے۔ اسی لیے اپنی شاعرانہ بصیرت سے اردو و فارسی شاعری کے خزانہ میں قیمتی اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ اردو و فارسی کے خاموش خدمت گذار میں سے ہیں اور نہایت خلوص کے ساتھ اردو و فارسی کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کی شخصیت کا خمیر سادگی خلوص اور صداقت سے تیار ہواہے۔ ڈاکٹر برقؔ بڑے ضبط ونظم کے آدمی ہیں۔ زندگی کے معمولات میں مستعد شریعت پرکار بند اورادبی و شعری سرمایہ کے محفوظ رکھنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کے اشعار میںخیالات کا تنوع، نظر کی وسعت اورزبان میں شخصیت کی سادگی اور طہارت کا عکس نمایاں رہتا ہے۔ (تقریظ:چہل قطعہ تاریخ)
’’چہل قطعہ تاریخ‘‘ کے تقریظ کے آخر میں پروفیسر جعفری تحریر کرتے ہیں:
’’فارسی کے جس پر آشوب دور میں ہم رہ رہے ہیں اس سے محبت رکھنے والے اشخاص خال خال ہی ملتے ہیں اس لحاظ سے ڈاکٹر برقؔ کی شخصیت اور ا ن کا مجموعۂ قطعات تاریخ ہر لحاظ سے ممتاز اور منفرد ہے۔ یہ مجموعہ متوازن ومتناسب بھی ہے اور فکری تطہیر کا نمونہ بھی‘‘۔
علامہ ناوکؔ حمزہ پوری صاحب علمی و ادبی دنیا کی ایسی معتبر ومعروف شخصیت ہیں کہ جب بھی وہ کچھ تحریر کرتے ہیں یاکسی شخصیت سے تعلق سے لکھتے ہیں توپورے اعتمادووقار کے ساتھ تحریر کرتے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں امانت داری و دیانت داری کو ملحوظ رکھتے ہیں اور بے جا تعریف سے پرہیز بھی کرتے ہیں۔ حضرت برق کی کتاب ’’چہل قطعہ تاریخ‘‘ کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’جائے شکر وسپاس ہے کہ علم وادب، زبان وبیان کے اس دورانحطاط پذیرمیں بھی ہمارے درمیان جلیل القدر علمی و ادبی خانوادے کے سلسلۃ الذہب کی درخشاں کڑی پروفیسر ڈاکٹر سید شاہ طلحہ رضوی برقؔ موجود ہیں جو اس فن لطیف کو بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ آپ نے کیا اردو اورکیا فارسی ہردوزبان میں بے شمار تاریخیں رقم کی ہیں اور مجھے کہنے دیجیے کہ فی البدیہہ ، برجستہ اور حسب حال تاریخ گوئی میں میری نظر میں موصوف کا ہمسر کوئی دوسرا نہیں‘‘۔
حضرت طلحہ رضوی برق کی تاریخ گوئی اور محاسن و خوبیوں کاذکر کرتے ہوئے علامہ ناوک حمزہ پوری صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت برقؔ کی تاریخ گوئی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی برجستگی میں بے مثال ہوتی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ حسب حال ہوتی ہے۔ بعض حضرات ایسے عمومی فقرے، جملے یا مصرعے سے تاریخ برآمد کرکے خوش ہولیتے ہیں جو اس سنہ و سال میں ہر وفات پانے والے پر منطبق کیے جاسکتے ہیں۔ برقؔ صاحب اس عمومیت سے دامن کش رہے ہیںاور آپ نے تاریخ ایسے الفاظ ،فقرے یا مصرعے سے برآمد کی ہے جو صر ف اسی شخص کے لیے مخصوص ہوتی ہے جس کے لیے وہ کہی گئی ہے‘‘۔
حضرت برق نے اردو فارسی کے ایک سو سے زائد آل انڈیا سمیناروں و کانفرنسوں میں شرکت کی اور مقالے پیش کیے بلکہ آپ نے اکثر کی صدارت بھی کی۔۱۹۶۱ء سے ہی آپ کے مقالات ، غزلیں اور نعتیہ کلام آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر مذاکرات اور مشاعروں میں بھی آپ نے شرکت کی ہے۔ پروفیسر برق کی بیش بہا تصنیفات پر اترپردیش اردو اکادمی ، مغربی بنگال اردو اکادمی اور بہار اردو اکادمی نے سند اعزازی کے ساتھ دوسرے اور تیسرے انعام سے بھی نوازا گیا ہے۔اس کے علاوہ ۲۰۱۰ء میں صدرجمہوریہ ہند نے قومی ایوارڈعطاکیا اور تاعمر سالانہ پچاس ہزارروپے کا سالانہ وظیفہ جاری کیا۔ آپ کی علمی و ادبی جلالت کے پیش نظر آپ کو مختلف تعلیمی، سماجی اور مذہبی اداروں میں صدورونائب صدوراور تاعمررکنیت عطاکی گئی نیز پانچ ادبی و مذہبی موقر رسائل و جرائد کی مجلس ادارت میں بھی آپ کو شامل کیاگیا۔ ساتھ ہی ڈین فیکلٹی آف ہیو مینیٹیر، ممبر آف سنڈیکیٹ ، ممبر آف سینیٹ، ممبر آف ریسرچ کائو نسل، ویرکنورسنگھ یونیورسٹی، آرہ۔ بہار، ممبر آف سنڈیکیٹ، مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی ، پٹنہ۔ اور بہار سے باہر کی اکثر یونیورسٹی میں بورڈ آف اسٹڈیز اوربورڈ آف اکزامینیشن کے ممبر بنائے گئے۔
حضرت برقؔ نے جب آنکھیں کھولیں تو گھر میں شریعت وتصوف او رشعرو ادب کا رشتہ مستحکم پایا۔ پورا گھرانہ دینی و ادبی ذوق سے معمورومنور تھا۔ جہاں شریعت و طریقت یکساں طورپرپھل پھول رہے تھے۔ خانقاہی نظام، مستحکم و منظم طورپر رواں دواں تھا، سینکڑوں برس سے قائم خانقاہ چشتیہ نظامیہ آج بھی لوگوں کے دلوں کی تسکین کا سامان فراہم کررہی ہے۔ لوگ آتے ہیں اور فیوص و برکات سے مستفید ہوکر جاتے ہیں۔ حضرت برق اپنے والد ماجد حضرت سید شاہ محمد قائم رضوی چشتی نظامی قتیل دانا پوری قدس سرہ سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت سے سرفراز کیے گئے۔ ۱۹۸۵ء میںوالد بزرگوار کے وصال کے بعد مخدوم سید شاہ محمد یسین چشتی نظامی خانقاہ آستانہ عالیہ چشتیہ نظامیہ داناپور کی سجادگی پر جلوہ افروز ہوئے ۔ آپ اپنے اس فریضے کو پیرانہ سالی کے باوجود بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر موصوف نے چار مرتبہ حج بیت اللہ شریف و زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل کی۔ (۱۹۷۰ء،۲۰۰۲ء،۲۰۰۴ء،اور ۲۰۰۸ء)ایران ایک ماہ کے لیے ۱۹۹۶ء میں ، لندن ۲ ماہ کے لیے ۲۰۰۴ء میں اور پاکستان ایک ماہ کے لیے ۲۰۰۵ء میںتشریف لے گئے۔پروفیسر برقؔ صاحب کی شادی نالندہ ضلع کے مہونی کے مولوی منظوراحسن صدیقی صاحب کی صاحبزادی بی بی زیب النساء سے ۱۳؍مارچ ۱۹۶۳ء میں ہوئی۔ آپ کی اہلیہ کا انتقال ۲۰۰۳ء میں ہوا۔ اللہ رب العزت نے انھیں چار بیٹے اور چار بیٹیاں عطافرمائیں۔ آپ نے سبھوں کی شادی کردی ہے ۔ اور سبھی صاحب اولاد ہیں ۔حضرت برق صاحب کا قددرمیانہ، رنگ گورا، بدن چھریرا، چہرہ نورانی وپررونق اور ریش مبارک سنت کے مطابق ہے۔ کرتا پائجامہ ، شیروانی اور سرپر کلاہ چادر ترکی اور کبھی دوسری ٹوپی بھی زیب تن کیے ہوئے رہتے ہیں۔ حضرت برق ملازمت سے سبکدوشی کے بعد خانقاہی ، دینی ، ملی ، سماجی ،معاشرتی اور ادبی وشعری خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں۔ آپ تواضع پسند، خاکسار، مہمان نواز، بااخلاق ، باکردار اور انسان دوست ہیں۔ مختصر یہ کہ آپ کی شخصیت علمی وادبی اعتبار سے شب تاریک میں قندیل رہبانی کی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے ۔ آمیں۔