نظم”اللہ ترا شکر ہے ” از ظفر کمالی

0
61

ہے تیری عنایت ہمیں انسان بنایا
ہے کون سا کام اچھّا، برا کیا ہے بتایا
سچّائی کے رستے پہ ہمیں چلنا سکھایا
انساں کے لیے مٹّی سے کیا کیا نہ اگایا
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر

جس َسمت نظر اٹّھے تری جلوہ گری ہے
دیکھے نہ اگر کوئی تویہ بے بصری ہے
ہے بادِبَہاری کہ نسیمِ سَحَری ہے
تو ارفع و اعلا تری ہر چیز کھری ہے
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر

یہ اونچے پہاڑ اور یہ جنگل یہ ہوائیں
شفاّف یہ جھرنے یہ سمندر یہ گھٹائیں
پھولوں کی یہ خوشبو یہ پرندوں کی صدائیں
ہونٹوں پہ ہمارے یہ مچلتی ہیں دعائیں
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر

سورج کو ضیا بخشی تو دریا کو روانی
کھانے کو اناج اور دیا پینے کو پانی
بچپن یہ لڑکپن یہ بڑھاپا یہ جوانی
کہتی ہے ہر اک شے تری حکمت کی کہانی
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر

یہ بامِ فلک اور یہ ستاروں کا چراغاں
یہ سبزہ، چراگاہ یہ صحرا یہ گلستاں
خوش رنگ پرندے یہ بہار اور گلِ خنداں
دیکھو جو انھیں غور سے تو عقل ہو حیراں
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر

آنکھوں کی بصارت ہو کہ ہونٹوں کا تبسّم
ہو خوں کی حرارت کہ زبانوں کا تکلّم
یہ ماہ یہ انجم یہ سمندر کا تلاطم
یہ شاخِ ثمردار یہ چڑیوں کا ترنّم
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر

تبدیل جواہر میں ہوں یہ کنکر و پتّھر
ہلکے سے اشارے سے ہو مفلس بھی تونگر
پانی کی پڑے بوند اگر سیپ کے اندر
ہوجائے وہ قدرت سے تری قیمتی گوہر
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر

صد شکر کہ ماں باپ کی دولت سے نوازا
دی عقل ہمیں علم سے حکمت سے نوازا
ہم کیا تھے مگر عظمت و رِفعت سے نوازا
سکھلائے ہنر عزّت و شہرت سے نوازا
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر

ثانی نہیں تیرا ہے تری ذات یگانہ
گاتے ہیں سبھی تیری ہی وحدت کا ترانہ
کیا کیا نہ کیا تو نے عطا ہم کو خزانہ
اک ہم ہی نہیں کہتا ہے یہ سارا زمانہ
اللہ ترا شکر ہے اللہ ترا شکر



Previous articleتم مسلماں ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے ؟
Next articleتذکرۂ خازن الشعراء(الٰہ آباد اور ہندوستان کے دیگر علما و شعرا کا ایک علمی تذکرہ)

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here