’’تقاریظ‘‘ پر ایک تقریظ از پروفیسرشمس الرحمن فاروقی

0
319

حضرت طلحہ رضوی برقؔ سے میری یاد اللہ اس وقت سے ہے جب ’’شب خون‘‘ نیا نیا نکلا تھا اور اس کا باب مراسلات طرح طرح کے مباحث سے بھراہوتاتھا۔ مراسلات کا زیادہ تر زور نئے ادب ، خاص کر نئی شاعری کی مذمت کرنے یااس کے دفاع اوروکالت میںصرف ہوتا تھا۔ برقؔ صاحب بھی کبھی کبھی ان مباحث میںبے تکلف حصہ لیا کرتے تھے۔ پھر ان کی کچھ اورتحریریں، شاعری ،تبصرہ اور تقریظ کے میدانوں میں بھی نظر سے گذریں۔ جناب برقؔ کوفارسی زبان وادب سے جو شغف تھا اور ہے اس کی بنا پر ہمارا رشتۂ اخوت ایک بار بندھا تو بندھا ہی رہ گیا۔ و ہ دن بھی تھے کہ مجھ سے اگرکوئی تقریظ کی فرمایش کرتا تو سخت اور سرد خاموشی کے سوا اسے کچھ نہ ملتا اور آج میں حضرت برقؔ کی ’’تقاریظ‘‘ پر تقریظ لکھ رہاہوں۔ اسے صبح پیری کی طباشیر کہیں یاکسی اہم لیکن پرانی روایت کی تجدید۔ یہ فیصلہ اس تحریر کے پڑھنے والوں اور خود ہمارے تقریظ نگار جناب طلحہ رضوی برقؔ پر ہے۔
کسی کتاب کے آغاز میں یعنی اصل کتاب شروع ہونے کے پہلے جو لکھا جائے اسے بیان کرنے کے لیے ہماری ادبی تہذیب میں کئی اصطلاحیں ہیں: تمہید، پیش لفظ، دیباچہ، مقدمہ،تقریظ۔ ان میں تھوڑا تھوڑا فرق بھی ہے۔’’ تمہید‘‘میں خود مصنف ، یاکبھی کبھی کوئی اور کتاب کے بارے میں بنیادی باتیں یا اس نقطہ نظر کوبیان کرتا ہے جس کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ کتاب لکھی گئی ہے۔ ’’پیش لفظ‘‘ کو زیادہ تر مصنف کے بارے میں کچھ معلومات ،یا اس کتاب کے بارے میں کچھ ضروری لیکن نفسِ مضمون سے غیر متعلق معلومات درج کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً کتاب کب لکھی گئی، مصنف کے مختصر کوائف وغیرہ۔ یہ باتیں’’پیش لفظ‘‘ میںدرج کی جاتی ہیں۔ یہ دونوں تحریریں عموماً مختصر ہوتی ہیںاور ان میں مصنف کے عیوب نہیں بیان ہوتے۔ ’’دیباچہ‘‘ عموماً ایک نسبتاً طویل تحریر ہوتا ہے جس میں کتاب کے مباحث پر اصولی اور بنیادی اور تنقیدی گفتگو ہوتی ہے۔ اس طرح ’’دیباچہ‘‘ حسبِ ضرورت مصنف کے بارے میں یا کتاب کے بارے میں بحث طلب باتیں، مختصراً ہی سہی، کہنے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ یعنی ’’دیباچہ‘‘ دراصل مصنف کتاب یا کم ازکم اس کتاب کے بارے میں تنقیدی مضمون کا حکم رکھتا ہے اوظاہر ہے ایسی صورت میں ’’دیباچہ‘‘ اہم ہی کتابوں کے لیے مناسب ٹھہرا یاجاناچاہیے۔ ’’مقدمہ‘‘ اور’’دیباچہ‘‘ میں زیادہ فرق نہیں ،بجز اس کے کہ ’’مقدمہ‘‘ عموماً ’’دیباچہ‘‘ سے طویل تر ہوتا ہے۔ہمارے یہاں ’’مقدمۂ تاریخ ابن خلدون‘‘ اور ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ اس کی مثالیں ہیں۔ ہمارے یہاں سب سے مشہور اور بصیرت افروز مباحث سے بھراہوا دیباچہ اپنے دیوان ’’غرۃ الکمال‘‘ پر امیر خسرو کا دیباچہ ہے۔ ’’تقریظ‘‘ کے معنی عربی میں ہیں ’’کسی زندہ شخصیت کی مبالغہ آمیز تعریف کرنا‘‘۔ ہمارے یہاں’’زندہ شخصیت‘‘ کی شرط ہمیشہ نہیں تو اکثر قائم رکھی گئی ہے لیکن ’’مبالغہ آمیز تعریف‘‘ سے لے کر تحسینی جملوں کو ’’تقریظ‘‘ کے لیے جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ اصطلاح اسی لیے اب بہت کم استعمال ہوتی ہے کہ تقریظ نگار پرجانب داری یا بے محابا توصیف کا الزام نہ لگے۔ ’’تقریظ‘‘ کی جگہ اب ’’فلیپ‘‘ نے لے لی ہے یعنی وہ مختصر عبارت جس میں کتاب یا مصنف کی مدلل(اور کبھی کبھی غیر مدلل)مداحی کے سواکچھ نہ ہو اور جسے کتاب کی جلد کے دونوں طرف سرورق کے مڑے ہو ئے حصے میں بآسانی در ج کیا جاسکے۔
مندرجہ بالا تعریفیں میں نے اپنے تجربے اورمطالعے کی روشنی میں بنائی ہیں۔ انھیں کسی لغت کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔ میرے خیال میں کسی لغت یاتنقیدی مضمون میں ان اصطلاحوں کے فرق کو کھول کر بیان بھی نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تو آپ دیکھ ہی سکتے ہیں کہ مصنف نے زیرِنظر کتاب کا عنوان ’’تقاریظ‘‘ جو رکھا ہے تو ٹھیک ہی رکھا ہے، بجزاس بات کے کہ ان تقاریظ میں ’’مبالغہ آمیز تعریف‘‘ سے حذرکیا گیا ہے لیکن جو صفت اس کتاب کو سرسری تقاریظ کے سری مجموعے سے مختلف بناتی ہے وہ مصنف علام کی علمیت ہے۔ انھوں نے مداحی ضرور کی ہے لیکن ایسی کوئی با ت نہیں کہی جس میں نری مداحی نظرآئے اور بعض تقریظیں ایسی ہیں جن پر کم و بیش مستقل مضمون یا دیباچہ کا گمان ہوتا ہے اور ایسی تحریروں میں مصنف نے اپنے علم اورمعلومات دونوں کا قابلِ ستایش اظہار کیاہے۔ مثلاً جناب سید نعیم حامد علی نے غزلیات بیدل سے ایک سیر حاصل انتخاب کیا ہے اور ان اشعار کا اردو میں ترجمہ بھی درج کیا ہے۔ ایسی کتاب پر لکھنے کے لیے وسیع اورمتنوع علم کی ضرورت تھی۔ جناب برقؔ کی ’’تقریظ‘‘ دراصل’’دیباچہ‘‘ ہے اور اس کی ہر سطر ان کی دقت نظری کا پتہ دیتی ہے۔ اسی طرح حضرت قطب الاقطاب خواجہ بختیار کاکی پر جناب غلام یحییٰ انجم کی کتاب پر طلحہ رضوی برقؔ نے صرف تحسینی نظر نہیں ڈالی، بلکہ کتاب کے کئی مسامحوں کی طرف توجہ دلائی اوربعض کی اصلاح بھی کی۔
فارسی زبان و ادب اورتصوف، پھر اس کے بعد اردو شاعری طلحہ رضوی برقؔ کی دلچسپیوں، بلکہ کارکردگیوں کے یہ میدان ہیں اور تقاریظ کے اس مجموعے میں ان تینوں میدانوں میں برقؔ صاحب کا اختصاص پوری طرح نمایاں ہے۔ میں نے قیاس کن ز گلستاں من بہارمرا کے مصداق ایک دو تقریظوں پر کچھ لکھ دیا۔ آپ پوری کتاب پڑھیں تو آپ کو لطف بھی حاصل ہوگا اورآ پ کے علم میں اضافہ بھی ہوگا۔


Previous articleاتحاد امت۔۔۔۔۔۔۔وقت کی بڑی ضرورت
Next article’باغ وبہار‘ کی ادبی اہمیت

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here