عظیم انصاری
انیسویں صدی کی ابتدا اردو ادب کے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔ اسی وقت فورٹ ولیم کالج کی بنیاد ڈالی گئی اور اس بنیاد نے بالخصوص اردو نثر کی ایسی بنیاد رکھی جس سے اردو نثر اس قابل ہوئی کہ اسے دوسری زبان کے مدمقابل رکھا جاسکے۔
اس کالج کے قیام سے پہلے اردو زبان کا نثری ذخیرہ بہت ہی محدود تھا نیز جو کتابیں دستیاب تھیں ان کی زبان مشکل اور بوجھل تھی ۔ فارسی کے اثرات گہرے تھے ۔ اس عہد کا ہر مصنف اپنی زبان دانی پر ناز کرتا تھا ۔ ظاہر سی بات ہے اس وقت کی نثری کتابوں پر اس کا بہت زیادہ اثر پڑا۔ فورٹ ویلیم کالج کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اردو کو اس پرتصنع ماحول سے نکال کر اس میں سادگی اور روانی بھر دی ۔ اسلوب بیان کی سادگی نے اس کے حسن کو اس قدر نکھارا کہ اس کے چاہنے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اس طرح فورٹ ویلیم کالج اردو نثر کا سنگ میل ثابت ہوا ۔ اس سلسلے میں جان گل کرسٹ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے لکھا ” جو احسان ولی نے اردو شاعری پر کیا تھا وہی احسان جان گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا ہے. ”
بنگال میں اردو نثر نگاروں کا قافلہ جنمے جے مترارمان ‘ عبدالغفور نساخ ‘ سید عصمت اللہ انسخ سے ہوتے ہوئے آج اکیسویں صدی میں ظہیر انور’ فیروز عابد’انیس رفیع ‘ کلیم حاذق’ ابوذر ہاشمی ‘ ڈاکٹر معصوم شرقی’ ڈاکٹر مشتاق انجم اور نصراللہ نصر تک آپہنچا ہے ۔ ایسے ہی درخشاں ستاروں کے درمیان ایک اور قابلِ قدر شخصیت ہے جسے دنیائے ادب ڈاکٹر شاہد اختر کے نام سے جانتی ہے ۔
ڈاکٹر شاہد اختر کا نام مغربی بنگال کے ادبی منظرنامے کا کوئی نیا نام نہیں ہے ۔ موصوف تقریباً پچاس برسوں سے اپنی نثری نگارشات کے ذریعہ اردو ادب کی خدمت کررہے ہیں لیکن ادبی منظرنامے پر ان کی وہ پزیرائی نہ ہوسکی جس کے وہ مستحق تھے ۔ اس میں جہاں ان کے ہم عصروں کی بے توجہی ہے وہیں ان کی لاپرواہی اور بے نیاز ی بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صوفی ظفر شاہد نے جو ان کے لائق فرزند ہیں ‘ اپنی حالیہ کتاب ” ڈاکٹر شاہد اختر : حیات اور نثری خدمات ” میں لکھا ہے کہ
” تنقید’ تخلیق ‘ صحافت’ سفر نامہ نگاری اور خاکہ نگاری میں انھوں نے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ یاد گار ہیں مگر وہ یاد نہ رکھے جائیں یہی خدشہ ہے جو اس کتاب کی تصنیف کا سبب بنا۔
یہ خدشہ بے جا نہیں ۔ ایک تو ان کی لا ابالی طبیعت کہ ان کی مطبوعہ تحریریں بھی ان کے پاس محفوظ نہیں ۔ غیر مطبوعہ تحریروں کا حال یہ ہے کہ پوری کی پوری کتاب مسودے کی صورت میں پڑی ہے اور ان کی اشاعت کی فکر نہیں ”
ڈاکٹر شاہد اختر کی نثری خدمات بحیثیت محقق ‘ تقریظ نگار ‘ سوانح نگار ‘ سفر نامہ نگار’ خاکہ نگار لائقِ تحسین ہیں ۔ آپ کی تنقیدی صلاحیت بھی بلا کی ہے۔ ان کے مضامین کی تعداد گرچہ کم ہے لیکن تحریر کی شگفتگی کمال کی ہے ۔ جو بھی لکھتے ہیں اس میں اپنے اسلوب کا گہرا اثر چھوڑتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قاری کو حصارِ تحریر سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔
ڈاکٹر شاہد اختر ١٩٨٥ میں صوبہ بہار کے شہر سیوان میں مسلم پرسنل لا کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ گرچہ ان کا قیام وہاں مختصر رہا لیکن انھوں نے اس سفر کی روداد کتابی شکل میں ” آوازِ رحیل ” ( سفر نامہ / سر گذشت) کے نام سے ١٩٨٧ میں شائع کیا جسے ادبی حلقوں میں ستائش کی نظروں سے دیکھا گیا ۔ اس سفر نامہ میں سیوان شہر کا تعارف کے ساتھ ساتھ سکندر پور ‘ پٹنہ’ مولا نگر (مونگیر) اور آسنسول کے قریب رحمت نگر ( برن پور ) کا بھی ذکر ہے ۔ اس سفر نامہ کی سب سے بڑی خوبی شاہد اختر کا اندازِ تحریر ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان علاقوں کی خصوصیات ہماری نظروں کے سامنے ہیں ۔
ڈاکٹر شاہد اختر کی دوسری کاوش ایک تحقیقی کام ہے ۔ اس تحقیقی کتاب کا نام ” سہرا سرِ کوہسار ” ( شعری مجموعہ ترتیب) ہے ۔ اس کتاب کی اشاعت ١٩٩٩ میں ہوئی۔ اس کتاب کے ذریعہ انھوں نے شیلانگ ( میگھالیہ) کے ایک گمنام شاعر الطاف حسین بدایونی کی شاعری اور شخصیت کو منظرِ عام پر لایا ۔ اس کتاب کے مقدمے کو پڑھ کر نہ صرف ان کی تحقیقی سلیقہ مندی کا پتا چلتا ہے بلکہ ان کی ناقدانہ بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ الطاف حسین بدایونی کی شاعری کا محاکمہ کرتے وقت لکھتے ہیں
” ان کی غزلوں کے اشعار اپنے زمانے کے مقبولِ عام رویوں ترقی پسندی اور جدیدیت سے دامن بچاتے ہوئے اس روایتی شاعری سے اپنا رشتہ جوڑے رہیں جو شاعری زبان کی شاعری تھی جو شاعری ادب برائے ادب یا رومانی تحریک کی شاعری تھی اس لیے ہمیں ان کی شاعری میں کسی نظریے سے وابستگی کا سراغ نہیں ملتا نہ ہی کسی گہرے فلسفے کا اظہار ملتا ہے ۔ ہاں اس داخلی شاعری کی جھلک ضرور ملتی ہے جو فانی بدایونی کی شاعری میں بہت گہرائی کے ساتھ ملتی ہے ۔”
الطاف حسین لطف بدایونی کے کلام کی تدوین ڈاکٹر شاہد اختر کی تحقیقی کاوش کا عمدہ نمونہ ہے ۔
اس کتاب کے بعد ڈاکٹر شاہد اختر کی دوسری کتاب ” چلتے ہیں تو چمن کو چلئے ” سن ٢٠٠٦ میں اشاعت پذیر ہوئی جو ایک سفر نامہ ہے ۔ اس کتاب میں ان کے قلم کی جولانی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی نثری صلاحیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
اپنے اس سفر نامے میں انھوں نے تاج محل کا نقشہ اس پرکشش انداز میں کھینچا ہے کہ قاری اس کی روانی میں خود بھی کھنچا چلا جاتا ہے۔
” ہم آگے بڑھے۔ ایسے بہت سارے مناظر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تاج کی نیم خوابیدہ مرمری سیڑھیاں چڑھیں اور تاج کی آغوش میں پہنچ گئے ۔ حواسِ خمسہ میں سے صرف باصرہ اور لامسہ برسرِ پیکار تھے ۔ بقیہ حواس جیسے سوگئے تھے ۔ عقل تھوڑے ٹھکانے لگی تو عاشق معشوق کی قبروں پر فاتحہ پڑھا اور جمنا کے کنارے والے حصے سے قلعہ کی ایک جھلک دیکھ کر ان ترسی ہوئی آنکھوں کا خیال دل میں لاتے رہے ‘جنھوں نے ٢٢ سال تک آگرہ کے قلعے سے اپنے محبوب کی آخری آرام گاہ کو تک تک کراس میں وہ نور بھر دیا تھا جس کی تابانی آج بھی باقی ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ دیارِ محبوب کی مہجور نگاہوں کا نور اگر تاج محل کو حاصل نہیں ہوا ہو تا تو اس میں ازخود رفتگی اور دل گرفتگی کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی ہوتی جو کیفیت تاج کے سوا دنیا کے عجائبات میں سے کسی اور کو حاصل نہیں ہے ۔ ”
یہاں ان جملوں میں ڈاکٹر شاہد اختر کا مشاہدہ ہی نہیں تخلیقی رجحان کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ زبان کی شگفتگی ماشاءاللہ عروج پر ہے۔
ڈاکٹر شاہد اختر نے ہگلی محسن کالج کے شعبۂ اردو کی جانب سے تحقیقی مضامین پر مشتمل کتاب” متاعِ لوح و قلم ” (٢٠١٢) میں مرتب کی ۔ انھوں نے مرتب کی حیثیت سے اس پر ایک طویل مقدمہ بھی لکھا جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کتاب سے متعلق وہ لکھتے ہیں
” شعبۂ اردو کو کتاب کی اشاعت کا پہلا موقع ملا اور میں نے اس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسی دستاویز آپ تک پہنچا دی جس میں شعبے کے ماضی اور حال کی آئینہ داری ہے۔”
اس کتاب میں ان کا ایک بسیط مضمون ” ترقی پسند تحریک اور اردو نظم ” بھی شامل ہے ۔ یہ مضمون ان کی تنقیدی صلاحیت کا عمدہ نمونہ ہے ۔ اس مضمون کے اختتامیہ میں وہ لکھتے ہیں
” ترقی پسند اردو نظم کے تعلق سے اپنی گفتگو تمام کرنے سے قبل یہ اعتراف ضروری خیال کرتا ہوں کہ یہ موضوع اتنا بسیط ہے کہ گفتگو سمیٹتے سمیٹتے بھی طویل ہوگئی اور پھر بھی اس کے بہت سارے نمائندہ رجحانات اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ چند بڑے شعراء کے کاموں کا احاطہ نہیں کیا جاسکا ۔ بہرحال اس بات سے کسی صائب الرائے کو انکار نہیں ہوسکتا کہ اردو کی شعری کائنات میں ترقی پسند نظموں نے جو قابلِ قدر اضافے کئے ہیں وہ ناقابلِ تردید ہیں ۔ ترقی پسند تحریک نے اردو نظم کا کینوس وسیع کیا ۔ اس میں تجربات و مشاہدات کے ساتھ نظریات و تصورات کے ایسے گلزار کھلائے جس نے وطن کی آزادی سے لے کر معاشرتی انقلاب تک کے ہر مرحلے میں اردو شاعری کو عالمی ادبیات کا ہم پلہ بنادیا۔”
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر شاہد اختر ایک اچھے نثرنگار ہیں اور خاموشی کے ساتھ اردو ادب کی خدمت کررہے ہیں۔ اگر ان کی طبیعت میں لاابالی پن اور خود سے بے توجہی نہیں ہوتی تو اب تک کئی کتابوں کے مصنف ہوتے۔ ڈاکٹر صوفی ظفر شاہد اپنی کتاب ” ڈاکٹر شاہد اختر: حیات اور نثری خدمات” میں اپنے والد ڈاکٹر شاہد اختر کے بارے میں لکھتے ہیں
” ٢٠١٠ میں حج کے لیے تشریف لے گئے تو ” ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلّی ” کے نام سے سفر نامہ لکھا ۔ اس سفر نامے کی صورتِ حال یہ ہے کہ صرف مسودہ صاف کرکے کمپوزنگ میں دینا ہے اور کتاب شائع ہوجائے گی مگر یہ کام بھی ان کی لاپرواہی کا شکار ہے ۔ ” رہِ رسم و آشنائی” ( خاکوں کا مجموعہ) بھی اشاعت سے محروم ہے ۔ خود نوشت سوانح ” گزار دینے کی شئے تھی گزار دی میں نے ” تکمیل کو ترس رہی ہے۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے دیا گیا پروجکٹ ” اردو کا ایک اہم مرکز – ہگلی ” تو ایک آنکھ میں اسٹروک کی وجہ سے داخلِ دفتر نہیں کیا جاسکا ہے۔ ”
ڈاکٹر صوفی ظفر شاہد نے اپنی کتاب کے اختتامیہ میں ڈاکٹر شاہد اختر سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے
” میں نے پیش گفتار میں اس کتاب کی تصنیف کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی تھی کہ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ ہمارے عہد کا ایک بڑا نثار محض اپنی تساہلی اور ناقدوں کی کم نگاہی کی وجہ سے اردو ادب کی تاریخ میں جگہ پانے سے محروم رہ جائے گا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ نثر نگار کی دستیاب تحریریں یکجا کرکے ان کو محاسبے کے عمل سے گزارا جائے تاکہ چیزیں محفوظ ہوجائیں اور اردو ادب کا قاری ان کے مطالعہ سے اپنے عہد کے اس بڑے نثر نگار سے آشنائی کا شرف حاصل کرسکے۔ ”
مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر صوفی ظفر شاہد جلد ہی ڈاکٹر شاہد اختر کی غیر مطبوعہ کتابوں کو منظرِ عام پر لائیں گے تاکہ مغربی بنگال کا نثری ادب اور مالا مال ہوجائے لیکن اس کے لیے ڈاکٹر شاہد اختر کے عملی تعاون کی ضرورت ہے
ڈاکٹر شاہد اختر کی نثر نگاری کی بات ہو اور ان کی خاکہ نگاری کی بات نہ کی جائے تو بات شاید ادھوری رہ جائے کیونکہ بقول ڈاکٹر صوفی ظفر شاہد
” خاکہ نگاری چونکہ ان کی محبوب صنف ہے اس لیے ان کی تقریضوں میں بھی خاکہ نگاری کے جوہر دیکھیں گے ۔ حد تو یہ ہے کہ ” چلتے ہیں تو چمن کو چلئے” میں بعض اشخاص کا تذکرہ اس انداز سے کیا ہے کہ خاکہ تیار ہوگیا ہے ۔ ایم جے اکبر کے نام کھلا خط جیسی صحافتی اور سیاسی تحریر میں بھی ایم ۔ جے۔ اکبر کو اس طرح پیش کیا ہے کہ بھرپور خاکے کا مزہ ملتا ہے ۔ خاکہ نگاری میں تجربے کے عمل سے بھی گزرے ہیں جب ” وحید عرشی ۔ تم کیا گئے کہ ۔۔۔۔۔۔ ” میں وحید عرشی کی مختلف ذاتی خوبیوں کا نقشہ مکالمے کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو بنگال کے دوسرے خاکہ نگاروں سے انھیں ممتاز کرتی ہے۔”
ڈاکٹر شاہد اختر کے خاکوں کی کتاب کی اشاعت گرچہ ابھی نہیں ہوئی ہے لیکن ان کے جو خاکے رسائل اور اخبارات کی زینت بنے وہ واقعی خاکہ نگاری کے عمدہ نمونے ہیں ۔ سالک لکھنوی ‘ عین رشید ‘ علقمہ شبلی ‘ وحید عرشی اور یوسف تقی پر جو خاکے نظر سے گزرے ہیں وہ واقعی قابلِ ذکر ہیں ۔ علقمہ شبلی پر ان کے خاکہ نگاری کا کمال دیکھئے
” شبلی صاحب کا نام پکارا گیا اور میں با ادب باملاحظہ ہوشیار کی تصویر بن گیا ۔ شبلی صاحب کھڑے ہوئے ۔ دراز قد’ چھریرا بدن’ سانولی رنگت ‘ چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ’ بہت چمکیلی آنکھیں جن پر سنہری کمانی کی عینک چڑھی ہوئی تھی ۔ سیاہ گھنے بال ‘ بیچ سے نکلی ہوئی مانگ ۔ شبلی صاحب دیکھنے میں بہت اچھے لگے ۔ ”
ڈاکٹر شاہد اختر یوسف تقی کے بارے میں لکھتے ہیں
” مگر میرے لیے شاعر’ محقق’ناقد’ مدبر اور دانشور یوسف تقی سے وہ یوسف تقی زیادہ پیارے لگے جن کو بات بات پر غصہ آتا ہے جو بہت بےباک اور نڈر ہیں ‘ جو مصلحت اندیشی اور خوشامد سے کوسوں دور ہیں ‘ خامیوں کی طرف اشارہ کیجئے تو بخوشی قبول کرلیتے ہیں ‘ خوبیوں کی تعریف کیجئے تو ہنس کر اڑا دیتے ہیں ۔ مخالف نے اگر گالی دی ہے تو گالیاں دے کر بھڑاس نکال لیتے ہیں ۔ نہ دشمنی پالتے ہیں ‘ نہ سازشیں کرتے ہیں ۔ دوستوں کی محفل میں ہوں اور مذاق کا موڈ بنا ہوا ہے تو raw بکتے وقت شاگردوں کی پروا نہیں کرتے ۔ ”
المختصر یہ کہ ڈاکٹر شاہد اختر کی نثری خدمات واقعی قابلِ قدر ہیں ۔ وہ مغربی بنگال کے اہم نثر نگاروں میں سے ہیں اور یہ کہ ان کا اسلوب اپنی الگ پہچان رکھتا ہے ۔ مجھے پوری امید ہے کہ ان کی دو تین کتابیں جن کی کمپوزنگ ہوچکی ہے جلد ہی منظرِ عام پر آئیں گی اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر شاہد اختر کی نثر نگاری کا جلوہ اور نمایاں ہوگا
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::