نظم ”میرا بکرا ” از ظفر کمالی

0
65

مرا بکرا نہیں پڑھتا ہے میں اُس کو پڑھاؤ ں گا
اُسے عالِم بناؤں گا اسے فاضل بناؤں گا

اسے ٹوپی پنھاؤں گا اسے چشمہ لگاؤں گا
اگر پڑھنے میں روئے گا تو میں اس کو ہنساؤں گا

بڑا پیارا ہے یہ بکرا کروں گا دوستی اس سے
کبھی دوں گا اسے ٹافی کبھی بسکٹ کھلاؤں گا

وہ لٹکائے ہوئے گردن میں بستہ جائے گا پڑھنے
میں اپنے ساتھ ہی اسکول میں اس کو بٹھاؤں گا

زمانہ ہے یہ انگلش کا تو پڑھ لے گا وہ انگلش بھی
اسی کے ساتھ اردو اور ہندی بھی سکھاؤں گا

وہ جب مغموم ہو گا میں کروںگا اس کی دل داری
سنائے ہیں مجھے دادی نے جو قصّے سناؤں گا

کبھی بیٹھے بٹھائے جب شرارت سوجھ جائے گی
مجھے وہ گد گدائے گا میں اس کو گد گداؤں گا

سِکھائوں گا اسے بَلاّ پکڑنا اپنے دانتوں سے
میں کرکٹ ساتھ اس کے خوب کھیلوں گا کھلاؤں گا

سُلا کر اس کو گدّے پر بٹھاکر اس کو صوفے پر
کبھی گانا سنائوں گا کبھی ٹی وی دکھاؤں گا

سکھادوں گا اسے مَیں کس طرح گاتے ہیں قوّالی
وہ ’’ مِیں مِیں ‘‘کرکے گائے گا تو میں ڈھولک بجاؤں گا

پلائو مرغ کو کیوں سونگھ کر وہ چھوڑ دیتا ہے
یہ کھانا مولوی کھاتے ہیں میں اس کو بتاؤں گا

کرے گا اپنی ٹانگیں جوڑ کر پَرنام لوگوں کو
اسے میں شہر لے جائوں گا ،گلیوں میں گھماؤں گا

اگر اسٹیج پر تقریر کرنا سیکھ جائے گا
تو بکرستان کا بکرے کو میں پی ایم بناؤں گا

بڑا ہو جائے گا جب وہ ، بندھے گا اس کو بھی سہرا
کسی بکری سے اس بکرے کی میں شادی کراؤں گا

مری کوشش یہی ہے گھر رہے آباد بکر ے کا
کہیں چھوٹے بڑے سارے مجھے استاد بکرے کا



Previous articleمعاف کیجیے: از جہانگیر انس
Next article“ماہنامہ عالمی زبان: “گوپی چند نارنگ نمبر ایک جائزہ…!”

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here