ساحل آرزو
اس نے پوری شدت سے بریک ماری۔اچانک گا ڑی رکی۔سامنے وہ ہوٹل دکھا ئی دیا۔جس کا اڈریس ایس ایم ایس کے ذریعے اسے موصول ہواتھا۔ وہاں اسے اس قلمی دوست سے ملنا تھا۔ جس سے آشنائی کا ذریعہ اس کا چھپاہوا ایک افسانہ بنا تھا۔ یہ ہوٹل اس سے مختلف تھاجہاں وہ ہربار اپنے نئے نئے شناسائوں سے ملا کر تا تھا۔ چونکہ وہ ہو ٹل خود اس کی فر مائش پر منتخب ہو تا تھا۔ مگر اس بار اسے اپنے نئے دوست کے انتخاب پر مجبور ہونا پڑا…!
ناصر سنڈے میگزین میں اپنا افسانہ دیکھ کر جتنا متحیر نہیں ہوا تھا۔ اس سے کہیں زیادہ تعجب و حیرانی مبارکبادی کے سینکڑوں فون پر اسے تھی۔ کئی دنوں کے یہ سلسلے اس کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ وہ ہر ایک کا شکریہ ادا کر تا رہا۔ بہت سے قارئین نے اپنے اپنے زاویۂ نظر سے اس کے افسانہ کی تعبیریں تلاش کیں…مگر وہ خود ایک بے نام میسیج کی مبارکبادی پر نام کے خفا کی تعبیر ڈھونڈتا رہا…!!
’’السلام علیکم …!آپ کی کہانی زبردست تھی۔ مبا رکباد دیتی ہوں ’’دل سے‘‘
لفظ’’دل سے‘‘پر وہ متعجب ہوا۔ اس نے کال لوٹائی۔بار بار لوٹائی۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے مجبورامیسیج سے ہی جواب دیا۔
’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی حوصلہ افزائی پر شکر یہ کہنے کا بھی مستحق نہیں ٹھہرا۔ورنہ آپ فون ضرور اٹھاتیں‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے آپ کی حوصلہ افزائی کر نی تھی جو میں نے میسیج کے ذریعے کردی‘‘یہ اس کا جواب تھا…!
نا صر نے پھر میسیج کیا’’برائے مہربانی آپ اپنے نام سے آشنا کرائیں‘‘
’’نہیں …!آپ کو نام سے کیا کام۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتی کہ میں نے آپ کا افسانہ پڑھا۔جو مجھے اچھا لگا اور مبارکباد دے دی ۔
ناصرکو ایک چھٹکا سا لگا …مگر اس نے پھر ایک ہمدردانہ میسیج کیا…’’چلیے نام کے بجائے اپنی کچھ دیگر مصروفیت سے آگاہ کریں۔کیا آپ بھی پڑھنے ،لکھنے اور چھپنے سے دلچسپی رکھتی ہیں ‘‘
’’جی ہاں…!میں خود شعرونثر کی رسیا ہوں۔ پڑھنا ،لکھنا اور چھپنا میرا محبوب مشغلہ ہے‘‘
ناصرنے موقع کو غنیمت جا نا اور پوچھا …!!’’تو پھر آپ کہاں چھپتی ہیں اور کس رنگ میں۔ مطلب آپ کی تخلیقی شخصیت کا کو ن سا رنگ ہوتا ہے اور آپ کو تخلیق کے کس پہلو سے رغبت ہے‘‘
لڑکی نے جواب دیا…!’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ میرے تئیں اتنے خلوص اور میری زندگی سے اس قدر دلچپسی کیوں لے رہے ہیں۔ میں خود ایک لڑکی ہوں۔ مشرقی لڑکی…!!ویسے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے لوگ خلوصِ فراوں کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہوتے‘‘
’’خلوصِ فراواں کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے‘‘جیسے بلیغ جملے نے نا صر کے سامنے اس کی تخلیقی شخصیت کو بے نقاب کر دیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ ضرور اس کی پرورش اردو کے آنگن میں ہوئی ہے۔ اس نے پینترا بد لہ:
’’مجھے لگتا ہے کہ آپ کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ مشاہدات بھی گہرے ہیں۔ سماج کے نشیب و فراز سے بھی آپ آگاہ ہیں اور سب سے بڑی بات جس نے مجھے خاصہ متأثر کیا وہ آپ کی مشرقیت ہے اور اقدار سے آپ کا لگائو…مجھے خوشی ہو گی کہ آپ میری قلمی دوستی قبو ل کریں‘‘
’’مجھے آپ کی قلمی دوستی قبو ل ہے بشرطیکہ آپ اس دوستی کے تقدس کو پائمال نہ کریں گے‘‘
اس میسیج کوپڑھتے ہی ناصر کے دل میں میٹھے میٹھے جذبا ت نغمہ ریز ہوگئے۔ اس نے فورا ایک خوبصورت سا جواب دیا…’’توبہ پڑھیے…!میری یہ کم خوش قسمتی ہے کہ آپ نے میری قلمی دوستی قبول کر لی۔میں وعدہ کر تا ہوں ، اس کے تقدس کو پائمال نہیں ہونے دونگا۔ویسے آپ زندگی کے جس موڑ پر بھی اس نا چیز کویاد کریں گے سرِ تسلیم خم پائیں گے‘‘
’’جی شکریہ …!!مدد کے لیے خدا کافی ہے اور وہی حقیقی مدد گار ہے‘‘لڑکی نے جواب دیا۔
’’جی ہاں…!اللہ ہی سچا حامی و ناصر ہے…!آپ کو ادب کا یہ اعلی اور لطیف ذوق کہاں سے ملا…ناصر نے مزید استفسار کیا‘‘
’’میرے والد محترم خود ادب کے دلدادہ تھے۔ انھیں شعریات میں غالب ،اقبال، فیض، مومن، جگر، آتش اور پروین شاکر وغیرہ سے دلچسپی تھی۔نثریات میں افسانوی ادب اور تنقید کا مطالعہ رہتا تھا۔ کلیم الدین احمد کی تنقید انھیں عزیز تھی جبکہ افسا نے میں منٹو، عصمت اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کو پڑھ لیا کر تے تھے۔ہاں…!نئے لکھنے والوں میںبھی کچھ لوگ انھیں پسند تھے۔ یہ ذوق انھیں کی عنا یت ہے‘‘لڑکی نے اپنائیت سے جواب دیا…!
ناصر نے ایک اور شوشہ چھوڑا…’’آپ کے الفاظ سے ایسا لگتا ہے کہ آپ کے والد محترم اس دنیا میں نہیں رہے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ انھوں نے کچھ نہ کچھ اپنا قلمی اثا ثہ بطور یادگار چھوڑا ہوگا‘‘
لڑکی نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا:
’’ہاں…!انھیں لکھنے کا بھی شوق تھا۔ چھپنے کا نہیں۔ کئی ڈائریاں لکھ رکھی تھیں۔شاعری ،تنقید اور قانون ان کا خاص محور تھا‘‘
ناصر کا ہر نشا نہ کا میاب ہورہا تھا۔وہ خوش تھا کہ انجا نی راہوں پر نکلا مسافر عنقریب منزل کوپالے گا۔اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ میسیج کیا:
’’میری راے ہے کسی اکادمی سے رابطہ کرکے ان کی تحریروں کی اشاعت کردی جا ئے تو شا ید آپ کے والد مرحوم ان کتابوں میں اپنے افکارو خیالات کے ساتھ امر ہوجائیں گے‘‘
’’آ پ کا میسیج پڑھ کر میری آنکھیں بھیگ چکی ہیں۔ آ پ نے مجھے ان پہلوئوں سے آگاہ کیا جس کا خیال بھی کھبی نہیں گذرا۔آپ کے اس احسان کوشاید زندگی بھر نہ بھلا پائوں‘‘
لڑکی کے آنسوئوں سے بھگے ہوئے اس میسیج میں ناصر کو اپنی فتح مندی نظر آنے لگی تھی۔ وہ ایک اور نئے دوست سے قریب ہونے اور پھر ملاقات کی سبیلیں ڈھونڈنے لگا۔آج اس کا میسیج کچھ الگ نو عیت کا تھا۔ وہ ہر دوست کی طرح اس سے بھی ملنے کا آرزو مند تھااور پچھلے تمام دوستوں کی طرح اسے بھی اپنے ہوس کا شکار بنا نا چاہتا تھا۔ انگلی بٹن پر پہنچی اور اس نے لکھنا شروع کیا:
’’کیا اچھا ہوتا ہم دونوں کہیں مل بیٹھ کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتے اور تخلیق و تصنیف کے تعلق سے مسائل کا حل تلا ش کرتے۔شاید کسی زاویے سے آپ کے والد محترم کی تحریر منظر عام پر لانے کی سبیلیں پیدا ہو جا تیں‘‘
’’بات آپ کی معقول ہے۔ میں بھی چاہتی ہوں کہ میرے والد محترم اپنی تحریر کے ذریعے زندہ ہو جائیں اور میں ان کی بیٹی ہو نے کا حق ادا کروں…مگر !!میں ٹھہری ایک مشرقی لڑکی…!پابندیاں ،درودیوار کی حدبندیاںاور کسی سے ملنے کی آزادی سے محرومی …کئی طرح کے گھریلو ،سما جی اور معاشرتی مسائل میرے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں آپ کی یہ معصوم آرزو پو ری نہیں ہو سکتی…پھر بھی میں کوشش کرونگی۔ یہ اس کا جواب تھا۔
ناصر مایوس تو ہوا۔ مگر میسیج کے آخری جملے سے کہ’’میں کوشش کروں گی‘‘اس کی امید برقرار رہی۔
اگلے ہی روز ’’میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں ‘‘ کے میسیج نے ناصر کی دنیا بدل دی اور وہ متعینہ ہو ٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔
ہو ٹل کے ایک کمرے میں وہ داخل ہوا۔ جہاں ایک برقع پوش لڑکی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے داخل ہوتے ہی دروازہ بند کردیا۔چند رسمی گفتگو ہوئی…لڑکی نے زیادہ با تیں کر نا مناسب نہیں سمجھا۔دھیرے دھیرے ناصر کے ہوس کی آگ تیز ہو رہی تھی۔ وہ قریب اور قریب ہوتا گیا۔ وہ اسے پھینچ کر با نہوں میں بھر لینا چاہتا تھا…مگر اگلے ہی لمحے لڑ کی نے اپنا بر قہ الٹ دیا…چہرہ دیکھتے ہی ناصر حوا س باختہ ہو گیا۔اس پر قیامت گذرگئی ۔ پیروں سے زمیں کھسک گئی۔ وہ لزر اٹھا اور اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ لڑکی نے دوڑ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور پوری شدت سے چیخنے لگی:
’’اب کیا ہوا…!کیوں رک گئے…!تمہاری آگ کیوں ٹھنڈی پڑگئی…!تمھارے اوپر خوف ،دہشت اور سراسیمگی کیوں طاری ہے…بولو ! جواب دو ! تم نے ادب ،ادیب ،شاعری اور نثر کے نام پر کتنوں کی زندگی تباہ کی،کتنوں کو اپنے جال میں پھنسایا،کتنو ں کے ارمانوں کو کچلا۔ کبھی اپنی علمیت دکھاکر،کبھی فلسفہ بگھار کر،کبھی نکتوں اور تہہ داریوں پر اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرکے…!کسی کو کتاب کی اشاعت کا لالچ دے کراور کسی کو اکادمی کی مالیت کے سبز خواب دکھا کر…اور نہ جا نے کون کو ن سے حر بے استعمال کیے… قلم کے تقدس ،اس کی حرمت، اس کی پاسداری اور اس کی عزت کا تم نے کو ئی خیال نہ رکھا۔ اسے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا تے رہے۔ یہ لڑکیاں تم سے متأثر ہو تی رہیں۔ تمھارے علم سے استفادے کی آرزو مند رہیں۔اس لیے وہ تمھارے قریب آئیں۔ لیکن تم نے انھیں کیا دیا… ایک ایسا زخم ،ایک ایسا غم اور ایک ایسا داغ جسے وہ زندگی بھرمٹا نہ سکے…!!
’’تمھیں معلوم ہے …!! میں نے خود کو مہرہ کیوں بنایا…؟تم نے جتنی لڑکیوں سے اپنے تعلقات قائم کیے۔ ان میں سے ہر کوئی میر ی شناسا ہے۔ مگر انھیں یہ خبر نہیںکہ میں تمھاری بہن ہوں۔وہ اپنے اوپر گذرے اس غم و الم اور زندگی کے لٹنے کا اظہار میرے سامنے کرتیں۔تمھارا نام لیتیں ۔پتہ اور نمبر دیتیں…میں چونک اٹھتی ۔ ہر بار تمھارا نام آتا… موبائل میں موجود تمھارانمبر سامنے آتا… تمھارے اس رویے نے مجھے زخمی کیا۔آج اسی زخمی دل کے ساتھ تمھارے سامنے کھڑ ی ہوں…ایسا کر تے ہوئے تم نے کبھی یہ سوچا کہ ایسا وقت بھی آسکتاہے…جو آج تمھارے سامنے مو جود ہے!!!
یہ اس کی بہن کی پکار تھی…چیخ تھی۔ جس نے ناصر کے حواس اڑادیے تھے۔وہ بوجھل بو جھل قدموں سے باہر نکلا۔آنسوئوں کے امنڈتے سیلاب اس کی آنکھوں میں تھے۔وہ ماضی پر شرمندہ تھا…بہت شرمندہ… اور خود میں ہو تے تغیر کو وہ محسوس کر نے لگا تھا… مگر ایک سوال اس کے ذہن میں بار بار آتااور اس کے اضطراب میں اضافہ کر دیتا… کہ آخر یہ سب اسی کے ساتھ کیوں ہوا…؟کتنے ایسے ادیبوں ،پروفیسروں اور عمر دراز افسانہ نگا روں کو وہ جا نتا تھا۔جنھوں نے کتنوں کی زندگی……!!!