ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ اردو
ملت کالج دربھنگہ، بہار.
خواجہ احمد عباس متنوع اور جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے.یوں تو وہ مستند اور اعلیٰ درجے کےصحافی، کالم نگار ، ،ناول نگار، ڈرامہ نگار، فلم ساز، فلمی ہدایت کار، فلم پروڈیوسر، سوانح نگار اور مضمون نگار تھے لیکن وہ ان سب کے علاوہ ایک ممتاز افسانہ نگار بھی تھے.
خواجہ احمد عباس کا پہلا افسانہ ‘ابابیل’ رسالہ جامعہ نئی دہلی، جون 1936ء میں شائع ہوا تھا جو ان کی بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے اور جو دنیا کی بہترین کہانیوں کے انتخاب West German Anthology میں بھی شامل ہے. اس کے علاوہ ان کے تقریباً سوا سو افسانے میں درجنوں ایسے افسانے ہیں جو موضوع اور واقعات کے دلچسپ انداز بیان کے اعتبار سے نا قابل فراموش ہیں. اس نوع کے افسانے میں ایک افسانہ’ میری موت’ بھی ہے.
واقعہ یہ ہے کہ تقسیم وطن کے بعد رونما ہوئے حالات کے بطن سے جو مسائل پیدا ہوئے ان میں ہندو مسلم فسادات اور قتل و غارت گری ایسا مسئلہ تھا جن سے دونوں ملکوں کے عوام کو سابقہ رہا. لہٰذا ایک عرصہ تک یہی مسئلہ اردو افسانے کا موضوع رہا اور اسی مسئلے کو موضوع بنا کر سینکڑوں افسانے لکھے گئے.’ میری موت’ کا بھی موضوع فسادات کا مسئلہ ہے. تاہم اس افسانے میں توہم پرستی، فرقہ واریت اور مذہبی کٹرپن کی نفی کی گئی ہے. فنی رکھ رکھاؤ، موضوع کے اچھوتے پن اور موثر انداز بیان کے سبب اس افسانے کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی.
خواجہ احمد عباس کا یہ افسانہ پہلی بار ‘سردار جی’ کے عنوان سے ‘ادب لطیف’ لاہور کے سالنامہ میں شائع ہوا تھا. ہندوستان میں اس کہانی کو الہ آباد کے ہندی رسالہ ‘مایا’ نے نقل کر کے شائع کیا. بعد میں یہی افسانہ ان کے افسانوی مجموعہ ‘میں کون ہوں’ میں میری موت کے عنوان سے جولائی 1949ء میں شائع ہوا.
گو اس افسانے میں خواجہ احمد عباس نے قومی یکجہتی اور سیکولر جذبات کو ابھارا ہے اور فرقہ وارانہ ذہنیت اور مذہبی تعصب کی موت دکھائی. تاہم چند غلط فہمیوں کے سبب اس افسانے پر سکھوں اورمسلمانوں کی طرف سے کافی اعتراض کیا گیا. کیونکہ سکھوں نے جہاں یہ سمجھا کہ افسانے میں ان کے مذہب کی توہین کی گئی ہے وہیں مسلمانوں کو یہ گمان گزرا کہ اس میں ان کی سبکی کی گئی ہے. حالانکہ افسانے کے مرکزی خیال، جس کا اظہار افسانے کے آغاز ہی میں کر دیا گیا ہے تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لئے کافی ہے. افسانے کا آغاز کچھ یوں ہوتاہے.
“لوگ سمجھتے ہیں کہ سردار جی مارے گئے
نہیں یہ میری موت ہے، پرانے ‘میں’ کی موت، میرے تعصبات کی موت، اس منافرت کی موت جو میرے دل میں تھی.”
(خواجہ احمد عباس – افسانوی مجموعہ-میں کون ہوں، جولائی 1949ء – صفحہ – 166)
افسانے کے آغاز سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کہانی ایک ایسے کردار کی ہے جو اپنے سابقہ فکر وعمل سے نادم ہے. افسانے کا خلاصہ یہ ہے کہ راوی یعنی شیخ برہان الدین بچپن سے ہی سکھوں کے رہن سہن اور ان کے آداب و اطوار سے نالاں رہا کرتا تھا. آزادی کے بعد جب تقسیمِ ملک کا معاملہ درپیش ہوا تو کئی دوسرے شہروں کی طرح دہلی میں بھی فسادات کی آگ بھڑک اٹھی اور بڑے پیمانے پر قتل و غارتگری کا بازار گرم رہا. مسلمانوں کے سینکڑوں گھر پھونک دئیے گئے، ان کی دکانیں لوٹ لی گئیں اور سینکڑوں قتل کئے گئے. اس خونی ماحول میں شیخ برہان الدین کو بھی اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان کا خطرہ محسوس ہوا. اس کی دو وجہیں تھیں. اول تو یہ کہ اپنے محلے میں وہی صرف اکیلا مسلمان تھا اور دوسرے اپنے سکھ پڑوسی پر اسے قطعی یقین نہ تھا کہ اس مشکل گھڑی میں وہ کسی قسم کی مدد کرے گا یا پھر اس کی حفاظت کرے گا. اس بے اعتمادی کی وجہ صرف یہ تھی کہ بچپن سے ہی برہان الدین سکھوں کو قابل اعتبار نہ سمجھتا تھا. یہی وجہ ہے کہ جب سردار جی نے شیخ برہان الدین سے کہا “شیخ جی فکر نہ کرنا. جب تک ہم سلامت ہیں تمہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا تو اس نے یہ خیال کیا کہ –
” میں نے سوچا اس کی داڑھی کے پیچھے کتنا مکر چھپا ہے. دل میں تو خوش ہے. چلو اچھا ہوا مسلمان کا صفایا ہو رہا ہے……. مگر زبانی ہمدردی جتا کر مجھ پر احسان کر رہا ہے بلکہ شاید مجھے چڑھانے کے لئے یہ کہہ رہا ہے کیونکہ سارے اسکوائر میں بلکہ تمام سڑک پر میں ہی تنہا مسلمان تھا. ”
لیکن سردار جی کے دل میں کوئی کدورت نہ تھی بلکہ اس نے واقعی سچے دل سے یہ بات کہی تھی. لہٰذا بلوائیوں نے جب شیخ برہان الدین کے گھر پر حملہ بول دیا تو سردار جی نے نہ صرف شیخ برہان الدین کے سامان کی حتی المقدور حفاظت کی بلکہ اپنے گھر میں اسے پناہ بھی دیا. حتیٰ کہ سردار جی نے اپنی جان کی قیمت پر شیخ برہان الدین کو بلوائیوں سے محفوظ رکھا. دراصل جب بلوائیوں کو یہ پتہ چلا کہ سردار جی نے ایک مسلمان کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھا ہے اور اس کی جان کی حفاظت کرنے کے درپے ہیں تو انہوں نے غضبناک ہو کر سردار جی کو ہی گولی مار دی. اور اس طرح ایک سکھ نے ایک مسلمان کی جان بچائی. ایک ایسے مسلمان کی جو سکھوں کا مذاق اڑایا کرتا تھا، اسے غیر مہذب قوم اور اجڈ سمجھتا تھا اور جس سے وہ نفرت کرتا تھا.
“سردار جی پلنگ پر پڑے تھے اور ان کے سینے کے قریب سفید قمیص خون سے سرخ ہو رہی تھی.
ان کا لڑکا ہمسائے کے گھر ٹیلیفون کر رہا تھا.
سردار جی! یہ تم نے کیا کیا؟ میری زبان سے نہ جانے یہ الفاظ کیسے نکلے. میں مبہوت تھا.
میری برسوں کی دنیا خیالات، محسوسات، تعصبات کی دنیا کھنڈر ہو گئی تھی.
سردار جی یہ تم نے کیا کیا؟
مجھے کرجا اتارنا تھا بیٹا.
قرضہ؟
ہاں راولپنڈی میں تمھارے جیسے ہی ایک مسلمان نے اپنی جان دے کر میری اور میرے گھر والوں کی جان بچائی تھی.
کیا نام تھا اس کا سردار جی
گلام رسول
غلام رسول…… اور میرے کانوں میں غلام رسول کی آواز دور سے آئی. میں کہتا نہ تھا بارہ بجے ان سکھوں کی عقل غائب ہو جاتی ہے اور یہ کوئی نہ کوئی حماقت کر بیٹھتے ہیں. اب ان سردار جی ہی کو دیکھو نا. ایک مسلمان کی خاطر اپنی جان دیدی. پر یہ سردار جی نہیں مرے تھے میں مرا تھا. ”
(خواجہ احمد عباس. افسانوی مجموعہ – میں کون ہوں – جولائی 1949ءصفحہ-183،184)
افسانے کا یہ اقتباس جہاں سردار جی کو انسانیت کے اعلیٰ منصب پر فائز کرتا ہے وہیں شیخ برہان الدین کے ان سارے تعصبات کو بھی رفع کرتا ہے جو سکھ قوم کے تئیں اس کے ذہن میں موجود تھا. یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ راولپنڈی میں جس غلام رسول نے سردار جی اور ان کے گھر والوں کی عزت بچائی تھی، وہ وہی غلام رسول تھا جو علی گڑھ میں شیخ برہان الدین کے ساتھ رہتا تھا
اور جو سکھوں کو بے حد بےوقوف سمجھتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ بارہ بجے تو ان کو بالکل خبط ہو جاتی ہے
لیکن سکھوں کی تضحیک کرنے والا یہی غلام رسول اپنی انسانیت نہیں کھوتا اور سردار جی کے خاندان کو اپنی جان دے کر بچاتا ہے. گویا خواجہ احمد عباس نے افسانے میں توازن برقرار رکھتے ہوئے اگر ایک طرف سردار جی کی قربانی کو پیش کیا ہے تو دوسری طرف غلام رسول کے توسط سے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے مسلمانوں میں بھی ایسے انسان دوست موجود ہیں جو ممکن ہے کہ سکھوں کے بارے میں لطیفے سناتے ہوں. لیکن وقت پڑنے پر سکھوں کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے.
غرض یہ افسانہ قاری کے ذہنوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسان کے اندر لاکھ حیوانیت اور درندگی کیوں نہ آ جائے، انسانیت اور انسانی ہمدردی بہرحال اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے. یہی انسانیت انسان کو ایک دوسرے سے قریب کرتی ہے.اور ان کے مابین محبت اور بھائی چارگی کو کے رشتے کو مضبوط بناتی ہے. مذہبی تعصب اور نسلی امتیازات کا یہاں گزر نہیں ہے. خواجہ احمد عباس نے اسی نکتے کو اس افسانے میں اجاگر کیا ہے.اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ شیخ برہان الدین اور غلام رسول بھلے ہی سکھوں سے نفرت کرتے ہیں، ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، انہیں غیر مہذب اور اجڈ سمجھتے ہیں، تاہم انسانی ہمدردی کے تقاضوں کے مقابلے میں انسانی قدروں کے منافی ان تمام تعصبات کی بنیادیں نہایت کمزور ہیں اور ریت کے گھروندوں کی مانند ہیں. افسانہ نگار کو اس کا شدید احساس ہے کہ جہاں انسانیت اپنے قدم رکھتی ہے وہاں تعصب اور منافرت کو اس کے سامنے سرنگوں ہو جانا پڑتا ہے. لہٰذا یہی وہ سچائی ہے جس کے تحت اگر ایک طرف غلام رسول سردار جی کی جان بچاتا ہے وہیں دوسری طرف شیخ برہان الدین سردار جی کی قربانی سے متاثر ہو کر اپنی غلط فہمی پر
نادم اور پشیماں ہوتا ہے. کہانی کے اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے روزنامہ ‘قومی آواز’ کے ایڈیٹر
نے اپنے اداریے کالم میں ایک مضمون لکھ کر یہ تاثر ان دنوں میں پیش کیا جبکہ سکھوں اورمسلمانوں
کی طرف سے اس افسانے پر اعتراض کیا جا رہا تھا
اور سارے ملک میں اس کی موافقت اور مخالفت میں بحث چھڑی ہوئی تھی. ایڈیٹر نے لکھا –
“جس طرح سورج نکلتے ہی تاریکی غائب ہو جاتی ہے اسی طرح سردار جی کی یہ قربانی تمام بدگمانیوں
کو کافور کر دیتی ہے. افسانہ کہتا ہے کہ یہ ہیں سردار جی اور یہ ہیں ان کے افعال. کہو. اب کیا کہتے ہو؟ بھلا ایسا شخص ظالم ہو سکتا ہے جو ایک پڑوسی کے لئے جان دیدے. ایسا شخص بےوقوف ہو سکتا ہے جو یوں تمھارے لئے مر جائے؟
ہیرو نادم ہے اپنی غلط فہمیوں پر……… ”
(بحوالہ’ میں کون ہوں’ از خواجہ احمد عباس – بمبئی
جولائی 1949ء-صفحہ – 36)
*****