نایاب نے ہیرو کا کان پکڑ کر زور سے کھینچا اور دوسرے ہاتھ میں موجود چھوٹی سی رسی کو جھٹکے دینا شروع کئے ۔۔۔پر جناب ہیرومیاں کو نہ کھسکنا تھا اور نہ چلنا تھا ۔وہ تو کسی اڑیل بچے کی طرح جمے کھڑے تھے جیسے کہہ رہے ہوں میں تو نہیں مانو گا ۔
ارے میرے باپ چل دے نایاب نے تھک ہار کر ہیرو کے سامنے ہاتھ جوڑ دئے پر وہ تو قلفی والے کی طرف اپنی معصوم سی آنکھیں پٹپٹاتے نایاب سے فرمائشی انداز میں بھاں بھاں کرتے جمے کھڑے تھے ۔
“اف میرے اللہ کس قدر ندیدے ہو تم ابھی تو میرا پورا چپس کا پیکٹ ڈکارا ہے اور اب قلفی پر نگاہ ہے ۔”
نایاب نے جلتے بھنتے جیب میں موجود آخری دس کا نوٹ نکال کر قلفی لی اور ہیرو کے منہ کے آگے کردی جسے ہیرو نے بڑے مزے سے زبان سے چاٹ چاٹ کر کھانا شروع کردیا اور پھر آرام سے خراماں خراماں نایاب کے ساتھ گھر کی جانب روانہ ہو گئے ۔
ہیرو نام تھا نایاب کے دنبے کا جو چھ ماہ پہلے دو ماہ کا بچہ ابو خرید کے لائے تھے ۔جب سے ہیرو آیا تھا ، نایاب کا تو سارا وقت ہی اس کی ناز برداری میں گزرتا کبھی فیڈر سے دودھ پلایا جاتا ، کبھی روٹی کھلائی جاتی تو کبھی سیب اور کیلوں سے تواضع کی جاتی ۔ہیرو میاں بھی نایاب کو ایسے لاڈ دکھاتے جیسے ان کے چھوٹے بھائی ہوں ۔اب تو وہ ہر طرح کے زائقے سے روشناس ہو چکے تھے ۔
قلفی ۔۔۔آئسکریم ۔۔۔کولڈرنک ۔۔۔چپس ۔۔۔چاکلیٹ ۔۔۔بسکٹ غرض وہ کون سی چیز تھی جو نایاب ان کے بغیر کھا پاتے ۔اور اب تو وہ فرمائش کرکے بھی چیزیں مانگنے لگے تھے ۔نایاب بیچارے کی ساری پاکٹ منی ان کے چونچلوں کی نظر ہو جاتی ۔مگر پھر بھی ایسی محبت تھی دونوں میں کہ ایک دوسرے کے بنا رہ ہی نہیں پاتے تھے ۔
عید قرباں اب قریب تھی نایاب کے بہت سے دوستوں کے گھروں میں بکرے اور گائے ،اونٹ وغیرہ آنا شروع ہوگئے تھے ۔اب شام کے وقت باقی بچے بھی اپنے قربانی کے جانوروں کو لے کر باہر ٹہلنے نکلتے تھے ۔مگر جو بات اور معصومیت ہیرو میں تھی وہ سب کو ہی اس کی طرف متوجہ کرلیتی تھی ۔
ابو ہیرو کے لیے بہت پیارے گھنگھرو لائے تھے ۔دادی نے ہیرو کے سفید جھاگ جیسے بالوں پر مہندی سے عید مبارک لکھا تھا ۔جیسے جیسے قربانی کے دن نزدیک آرہے تھے ۔ہیرو کے لاڈ بھی بڑھتے جارہے تھے ۔ابو روز ہیرو کے لیے جلیبی اور گلاب جامن لاتے جس وہ بڑے مزے سے ہپڑ ہپڑ کھا کے اپنی معصوم آنکھیں جھپکا جھپکا کر سب کو دیکھتا ۔مگر اس سب کے ساتھ ساتھ نایاب کو ایک چپ سی لگتی جارہی تھی ۔وہ چپ بیٹھا ہیرو کو دیکھتا رہتا ۔
ابو نے اسے اداس بیٹھے دیکھا تو پیار سے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگالیا “کیا ہوا یار ہمارا بیٹا اتنا چپ اور اداس کیوں ہے ۔”
“ابو !! کیا ہم ہیرو کو زبحہ کردئیں گے ؟ ” اس نے آنسو بھری آنکھوں میں حسرت بھر کے ہیرو کی جانب دیکھا اور بھاگ کر دونوں ہاتھ اس کی گردن میں ڈال کر اس سے چمٹ گیا ۔
دادی نے اسے محبت سے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ وہ رات میں کھانے کے بعد اسے ایک کہانی سنائیں گئی۔پہلے وہ پیٹ بھر کر کھا نا کھائے کیونکہ نایاب نے دو دن سے کچھ بھی شوق سے نہیں کھایا تھا دادی نے آج امی سے اس کی پسند کی کھیر بنوائی تھی ۔
کہانی کے شوق میں وہ وقتی طور پر بہل گیا اور کھانا بھی پیٹ بھر کے کھایا ہیرو کو روٹی اور پھر کھیر کھلائی پھر خود کھائی اور اب دادی کے ساتھ ان کے بستر پر کہانی کا منتظر بیٹھا دادی کو اشتیاق سے دیکھ رہا تھا ۔
“ہاں تو سنو بہت پہلے کی بات ہے اللہ تعالی کے ایک رسول جن کا لقب خلیل اللہ تھا وہ اللہ تعالی کے نہایت شکر گزار اور فرمابردار پیغمبر تھے ۔بہت دعاوں کے بعد اللہ تعالی نے انہیں ایک فرزند عطا کیا تھا جن کا نام اسماعیل ؑ تھا ۔
ایک بار ایسا ہوا کہ انہیں ایک خواب نظر آیا جس میں انہیں لگا کہ ان کا رب ان سے مخاطب ہے کہ “اے ابراھیؑم ہماری راہ میں اہنی قیمتی چیز قربان کر ” جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے خواب کے مطابق 100 اونٹ قربان کردئے اور مطمعن ہو گئے ۔مگر دوسرے دن پھر یہی خواب نظر آیا ۔انہوں نے صبح آٹھ کر پھر سے اونٹ زبح کردئے مگر اب وہ کچھ بے چین تھے اس رات انہیں پھر سے وہی خواب نظر آیا جس میں ان سے کہا گیا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کردئیں ۔
ابراھیؑم خلیل اللہ اپنے بیٹے سے بے حد محبت کرتے تھے، مگر رب کریم کی محبت اور فرمابرداری ہر چیز سے بڑھ کر تھی ۔”
نایاب بڑی دلچسپی سے دادی سے کہانی سن رہا تھا اتنے میں ہیرو کی بھاں بھاں کی آواز نے اس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی وہ ہیرو کے پاس گیا اسے پیار کیا پچکارا تو ہیرو صاحب کو چین آیا اور وہ سونے کے لیے لیٹ گئے ۔
نایاب دادی کے پاس آکر لیٹ گیا ۔”پھر کیا ہوا دای “۔!! اس نے سوال کیا ۔
دادی نے مسکرا کر اس کے انہماک کو دیکھا اور کہانی کا سرا وہی سے جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا ۔
خلؑیل اللہ اپنی بیوی کے پاس گئے اور ان سے کہا بیٹے کو تیار کردئں وہ انہیں اپنے ساتھ کسی دعوت میں لے کر جارہے ہیں ۔بی بی حاجرہ نے بیٹے کو نہلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنائے اور پیار کرکے والد کے ساتھ روانہ کردیا ۔
راستے میں باپ نے بیٹے سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے لے کر جارہا ہوں ۔اس پر فرمابردار بیٹے نے خوشی سے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کردیا ۔حالانکہ اس دوران شیطان نے اس بچے کو ورغلانے کی پوری کوشش کی مگر وہ اپنی جگہ ثابت قدم رہے ۔
باپ نے بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور چھری گردن پر پھیر دی مگر اللہ کی قدرت تھی کہ چھری نے ا ن کا گلا نہیں کاٹا بلکہ اللہ تعالی نے ایثار اور قربانی کے اس مظاہرے سے خوش ہوکر جنت سے ایک دنبہ بھیجا جسے فرشتوں نے بیٹے کی جگہ رکھ دیا اور اسے اللہ کی راہ میں قربان کیا گیا ۔
اللہ پاک نے ابراھیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیحہ اللہ کا یہ عمل اس قدر پسند فرمایا کہ اسے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دے دیا جس میں ذالحج کے مہینے کی دس گیارہ اور بارہ تاریخ کو ہر صاحب حیثیت مسلمان اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتا ہے ۔
یہ جانور ہم اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ اس لیے ہم قربانی کے جانور کی خدمت کرتے ہیں ۔ان سے محبت کرتے ہیں اور پھر اسے قربان کر دیتے ہیں ۔
بیٹا قر بانی کی اصل روح یہی ہے کہ اپنی پیاری چیز اللہ کی راہ میں دینا ۔”
“دادی میں سمجھ گیا آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔میں بھی اب اپنے پیارے ہیرو کو بہت محبت سے اللہ کی راہ میں قربان کروگا ۔اور اس کا بہت خیال بھی رکھو گا ۔
میں اس سے محبت کروگا جھبی تو یہ مجھے جنت پر جانے والے راستے پل صراط کو پار کرائے گا ۔۔”
نایاب نے کہا اور دادی سے چمٹ گیا ۔