ڈاکٹرالتفاتؔ امجدی
خانقاہ امجدیہ ، اسٹیشن روڈ، سیوان بہار
چلا رہے ہیں جو تیر بچے
وہ بننے والے ہیں ویر بچّے
کبیر ہیں جو شرارتوں میں
وہ علم میں ہیں صغیر بچّے
مثالی ہوتی ہے جن کی سیرت
وہ ہوتے ہیں بے نظیر بچّے
پسند جن کو ہے صحبتِ بد
انھیں کہو بد خمیر بچّے
کوئی مثلث نہیں بنے ہیں
ابھی ہیں چھوٹی لکیر بچّے
سماج کے سر کا درد ہوں گے
جوانی میں بے ضمیر بچّے
بچاتے ہیں لاج علم و فن کی
غریب گھر کے حقیر بچّے
دماغ رہتا ہے ان کا روشن
جو روز پیتے ہیں شیٖر بچّے
کتاب پڑھنے میں رہتے ہیں گم
جو علم کے ہیں اسیٖر بچّے
کماتے ہیں پیسے گیت گاکر
ٹرین و بس میں فقیر بچّے
پڑھا رہی ہے جنھیں غریبی
وہ کل بنیں گے امیر بچّے
جنھیں نہیں کچھ بھی فکرِ عقبیٰ
وہی تو ہیں بے ضمیر بچّے
گپھائوں کا شہر دیکھیں گے وہ
گئے ہیں جو راجگیر بچّے
جنھیں ملی علم و فن کی دولت
فقیر کے ہیں امیر بچّے
تم التفاتؔ ان کے شر سے بچنا
یہ شہر کے ہیں شریر بچّے