احمد کمال حشمی ایک تعارف از: “انسان گروپ”مغربی بنگال

0
118

خاندانی نام:احمد کمال حشمی
قلمی نام:احمد کمال حشمی
والدین:حشم الرمضان
صالحہ بانو
پیدائش:24 اگست 1964
جائے پیدائش: گارولیہ (شیام نگر)
آبائی وطن:بلیا (یوپی)
ملازمت:حکومت مغربی بنگال کے
محکمۂ اراضی میں افسر
تعلیم:بی ایس سی
آغاز شاعری:1987ء
کتابیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)آیاتِ سخن۔1995ء
کلکتہ کے مضافات کی
شاعری کا انتخاب
۔ (2)سفر مقدر ہے۔2005ء
غزلوں کا مجموعہ
۔ (3)چاند ستارے جگنو پھول
۔ 2009(بچوں کیلئے نظمیں)
۔ (4)ردعمل۔2016
غزلوں کا مجموعہ
۔ (5)آدھی غزلیں۔2017
(اختراع)
۔ (6)سنگِ بنیاد۔ 2020
(تضامین کا مجموعہ)
انعامات اور ایوارڈز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)سفر مقدر ہے کو
مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے
انعام سے نوازا۔
۔ (2)چاند ستارے جگنو پھول کو
مغربی بنگال اور
بہار اردو اکیڈمیوں کی
طرف سے انعامات ملے۔
کلکتہ کے مختلف غیرسرکاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اداروں کی طرف سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)اثبات و نفی ایوارڈ
۔ (2)ساحر لدھیانوی ایوارڈ
۔ (3)قرطاس و قلم ایوارڈ
پتا:
H/28/1, B. L. No. 2, Kankinara
West Bengal… INDIA
ای۔میل:
ahmadkamalhashami@gmail.com
موبائل نمبر:
9433145485/7003296373

احمد کمال ؔحشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس کی آبلہ پائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سے پھول کھلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد جمال صارم
مالیگاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب حسن کلام اور تاثیر کلام کے توسط سے مظاہرہ جمال کو حیات انسانی پر لباس کرتا ہے۔یہ زندگی کی صداقتوں کی امانت کے ساتھ ساتھ اس کو تعبیر و تنقید بھی فراہم کرتا ہے ۔ ادب زندگی سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اس پر اثر انداز بھی جس طرح زندگی اپنےرویوں کے اظہار، اپنے رجحانات کی عکاسی اور اپنے اجتماعی اور سماجی مسائل کے لئے ادب کی محتاج ہے ویسے ہی ادب بھی اپنے موضوعات کے انتخاب، اپنی ساخت اور وجود کی تشکیل کے لئے زندگی کے سماجی اور تمدنی وسائل کارہین منت ہے۔ ایک اچھا تخلیق کار اپنے اطراف میں موجود سماج کی اجتماعی زندگی سےمحسوسات کا ادراک کرتا ہے او رانھیں انفرادی فکری تعامل سے گذار کر زینت قرطاس کرتا ہے ۔چنانچہ یہ تعامل اطلاقی طور پر زندگی سے جتنا زیادہ قریب ہوتا ہےاس سے اتنا ہی اعلیٰ تر ادب تخلیق ہوتا ہے۔ بقول خالد احمد:
’’ ادیب زندگی کو اپنا موضوع سخن قرار دے یا نہ سے زندگی بہر طور ہر ادیب کی تخلیق میں در آتی ہے اور یہ بات کسی وضاحت کی محتاج بھی نہیں کہ یہ فنکار کے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی کے سوا کوئی اور زندگی نہیں ہوتی ۔ یہ بات بھی کسی تقصیل کی طالب نہیں کہ یہ زندگی کی اطلاقی صورت کے عکس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔‘‘
ادیب بالخصوص شاعرفطرتاً زیادہ حساس ہوتا ہےاور اپنے محسوسات کوسلیقے سے پیش کرنے پر قادر بھی ہوتا ہے۔چنانچہ اس کےباطن کی حسیت جس قدر شدید تر ہوتی ہےاس کا اظہار بھی ویسا ہی توانا ہوتا ہے۔احمد کمال ؔ حشمی بھی ایک ایسا ہی حساس شاعر ہے جواجتماعی زندگی کے آشوب سے اٹھنے والے دھوئیں کو انفرادی کرب کا حصہ بنا لیتا ہے اور پھر یہ کرب جب اس کے فکر و احساس سے متعامل ہوتا ہے تو اس سے حاصل ہونے والا ’’رد عمل ‘‘ اعلی ترین شعر ی تخلیقات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔فی الوقت ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’ رد عمل ‘‘ میرے ہاتھوں میں ہے جس کا بالاستیعاب مطالعہ مجھے ان کی شاعری کے حوالے سے خامہ فرسائی پر مجبور کر رہاہے ۔اس مجموعے کی قرآت مجھ پر واضح کرتی ہے کہ انھوں نے انسانی کرب کو اپنی رگ و پے میں سمو دیا ہے۔ وہ روح عصر سے آشنا ہیں ، وجود کی حقیقت ، نفسیاتی جہان کی تشکیک ، رویوں اور معاملات کے تضادات ، ذات کا انتشار اور اس کی شکست ریخت غرض یہ کہ تغیرات و کیفیاتِ حیات کی کل باریکیاں ان کے مشاہدے و تجربے کا حصہ ہیں جن میں بلا کا عمق پایا جاتا ہےجو سرسری پن اور جذباتیت کے بجائے فکر ی اور حسی گہرائی کی حامل ہیں ۔ وہ خود کو ان محسوسات میں گم کر کے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔
ہیں میرے دونوں پائوں تلے برف کی سلیں
اور میرے دونوں ہاتھوں پہ رکھی ہوئی ہے آگ

ہر آدمی کو گھر کے اندھیروں کی فکر ہے
روشن کرے گا کون سر رہ گذر چراغ

دل جس کو کہتے ہیں وہ ہے
آدھا پتھر ، آدھی مٹی

میں نے اس سے دنیا مانگی
اس نے ہاتھ پہ رکھ دی مٹی

حقیقی اور سچی شاعری اپنے عہد کی بہترین ترجمان ہوتی ہے جس میں سماجی ، سیاسی ، معاشرتی اور تہذیبی تمام ترعوامل کارفرما ہوتے ہیں ، جو ایک عام آدمی کے رنج و غم سے لے کر سماج و معاشرے کی اجتماعی زندگی تک کو اپنی بساط کا حصہ بناتی ہے ۔ یہ انسانیت کی بے کسی کا المیہ بھی نظم کرتی ہے اورمسخ ہوتی ہوئی تہذیبی اقدار کی پامالی کا مرثیہ بھی سناتی ہے ۔ یہ مسند نشینوں کی بدعنوانیوں کی داستان بھی رقم کرتی ہے اور ان کی آلہ کار عوام کی نا عاقبت اندیشی کا رونا بھی روتی ہے ۔’’ رد عمل‘‘ کی غزلوں میں بجا طور پر زندگی کی آہٹیں سنائی دیتی ہیں ۔ان میں شب و روز کے حقائق کی سچی تفسیر موجود ہے۔ ان غزلوں کا دوسطری پیرائیہ اظہار اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے ماحول کی حقیقی منظر کشی پیش کرتا ہے۔ان میں حیات کی کشمکش اور اس کے تصادمات سےقاری کو نہایت عام فہم انداز میں روشناس کرایا گیا ہے ۔ جانے پہچانے رنگوں اور تجربوں سے مالا مال یہ غزلیں سمجھنے اور سمجھانے سے زیادہ محسوس کئے جانے کی چیز ہیں۔’رد عمل ‘ کا شاعر فلسفہ آمیزی، اسرار و رموز کی عقدہ کشائی، نادر تشبیہات ، بے مثل استعارات اور بھاری بھرکم تراکیب سے قاری کو چونکانے کا قائل نہیں بلکہ سادہ اور مانوس لفظیات سےواضح اور غیر مبہم کائنات تعمیر کرنے کا موید ہے جسے مزاج کی صاف گوئی اور اظہار کی بے باکی کی ہمرہی حاصل ہے ۔ بعض اوقات یہی قرینہ اظہار اسے سراپا احتجاج ہوجانے پر بھی آمادہ کر لیتا ہےلیکن اس کے باوجود اس کا لہجہ کسی بھی طرح کی خشونت اور کھردرے پن سے پاک ،جھلاہٹ سے عاری اور لطافت و طراوت سے پر ہوتا ہے۔

مانگتے ہیں حق بھی وہ خیرات کے انداز میں
التجائیں کرتے کرتے گڑگرانے لگ گئے

پرندے چار دانے پا کے خوش ہیں
قفس کا نام گھر رکھا ہوا

دن مجھے ہر دن بنا لیتا ہے اپنا یر غمال
رات جب آتی ہے تو خود کو چھڑا لاتا ہوں میں

آرٹ اور فن کا مقصدمحض اشیاء کی علمی آگہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد اشیاء میں حسیات کا اقبال ہوتا ہے ۔ ایک ہی عنوان پر مشتمل فن ہمارے ادراک کو الگ الگ درجات کے ذائقوں سے آشنا کراتے ہیں ۔ لہذا معروض کو معروض کی طرح پیش کردینا اہم نہیں ہے بلکہ اس کو نئے پیراہن میں اور منفرد زاویوں سے پیش کرنا اہم ہےتاکہ وہ اپنی عام سطح سے بلند ہوجائے اور یہی جمالیات کا منتہا و مقصود ہے ۔ شاعری کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ اس کا تعلق انسان کے جذبات و خیالات ، مشاہدات و تجربات اور ذوق و وجدان سے ہے ۔ اس کو سوچا کم اور محسوس زیادہ کیا جاتا ہے۔ کبھی ہم اسے گرفت کرپانے سے معذور ہوتے ہیں اور کبھی یہ ہمیں رنگ و آہنگ اور معانی کی طلسماتی دنیا میں پہونچا دیتی ہے ۔ ’’رد عمل ‘‘ کی شاعری بھی معروضات کو فنی اور جمالیاتی سطح پر بلند رکھ پانے میں حد درجہ کامیاب ہے ۔

طوفان میں تھا میرا سفینہ تو غم نہ تھا
طوفان اب کے میرے سفینے میں آگیا

سجا کے آنکھوں میں کچھ خواب اطلس و کمخواب
تم اپنے ہاتھ کا تکیہ بنائو، سو جائو

آج آنکھوں میں آ گئے آنسو
آج صحرا میں بھر گیا پانی

دنیا پڑی ہوئی ہے کمال اس میں دیکھئے
کونے میں جو پڑا ہے پٹارا فقیر کا

رقص کرتی ہے ہر اک موڑ ہر اک گام پہ موت
آئیے جشن منائیں کہ ابھی زندہ ہیں

غزل کے موضوعات اور اس وسعتوں کے حوالے سے سرور عالم راز سرورؔ ایک مقام پر یوں رقم طراز ہیں :
’’ غزل نام ہے حسن و عشق کی طلسماتی دنیا کا جہاں زندگی کے بیشتر حجابات اٹھ جاتے ہیں اور جس کی سرشاری سے ہم مالا مال ہوتے ہیں ۔ غزل منسوب ہے تصوف اور معرفت کے رموز و نکات سے خواہ وہ کتنے ہی فرضی ہوں یا فرضی لگتے ہوں ۔ دنیا اور دنیا والوں کے قصے ، ان کی سازشیں ، فریب اور دنیا داری کی کہانیاں ، ہجر و وصال کی کبھی ختم نہ ہونے والی روداد، گل و بلبل کے فسانے جن کے واسطے سے ہماری زندگی کے کتنے ہی در وا ہوتے ہیں ، انسانی کامرانیوں ، نامرادیوں اور امید واریوں کی جانفزا کہانی وغیرہ سے غزل کی وہ شکل ظہور میں آتی ہے جس کو پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’’اردو شاعری کی آبرو‘‘ کا نام دیا ہے ‘‘۔
’’ردعمل ‘‘ کی شاعری بھی ان ہی تمام موضوعات پر محیط ہے جن سے غزل کی آبرو تحفظ حاصل کرتی ہے ۔اس میں حسن وعشق کی واردات کا بیان بھی ہے ،ہجر و وصال کے واقعات بھی ہیں ، معرفت و تصوف کی جھلکیاں بھی ہیں ، انسان کی ناکامی اور نامرادی کی داستانیں بھی ہیں ، گل و بلبل کی قصے بھی ہیں اور دنیا کی بے وفائی کاا فسانہ بھی ۔موضاعات کی عمومیت کے باوجوداحمد کمال ؔ حشمی کی شاعری تخیل کی بلندی ، بیان کی شدت ، لہجے کی تازگی اور اظہار کی لطافت کی ایسی ثروت مندی کے زیر اثر تخلیقی مراحل سے گزرتی ہے کہ اپنے لئے ایک نیا آہنگ تراش لیتی ہے :

جل رہا تھا زندگی کی دھوپ کی شدت سے میں
آپ نے زلفیں بکھیریں شامیانے لگ گئے

اداس آنکھوں میں جاکر ٹھہر گئی تھی رات
وہ آج کھل کے ہنسا ہے کہ دن نکل آیا

انتظار اس کا اسی طور میں کرتا ہوں کمال ؔ
اپنی انکھیں در و یوار کو دے دیتا ہوں

بس اک جھلک ہی پا کے تری خوش بہت ہے د ل
تھوڑے میں ہو رہا ہے گذارا فقیر کا

اک رات میرے کمرے میں اترا تھا ایک چاند
دیتے ہیں آج تک در و دیوار روشنی

آئی تمہاری یاد کہ جب ایک جا ہوئے
تنہائی ، رات ، چاند ، ہوا ، جام ، مے، چراغ

دوانے رقص جنوں کر رہے ہیں مقتل میں
صدائیں دیتی ہے جھنکار ، قم باذن اللہ

جہاں کعبہ تھا ، وہاں سر کو جھکایا تم نے
جہاں سجدہ کیا میں نے وہیں کعبہ نکلا

احمد کمالؔ حشمی کے یہاں موضوعات کا دائرہ کابہت وسیع ہے۔ان کے قرینہ اظہار میں داخلی عوامل کی بو قلمونی نسبتاً کم نظر آتی جبکہ خارجی حقائق کا بیان بہت تواتر سے ملتا ہے۔ وہ اپنے گرد و اطراف میں پیش آنے والے واقعات کو تجزیاتی سطح پر پرکھتے ہیں اور فکر کی کسوٹی پر رکھ کر نتائج بر آمد کرتے ہیں ۔لیکن ان کی تجزیاتی روش اپنےساتھ ایک ایسا لطیف حسیاتی زاویہ نظر رکھتی جو اپنے ہمراہ کیف و جذب کی فراوانی بھی لئے چلی آتی ہے۔یہی وجہ ہے بیان کی تمام تر خارجیت کے باوجود بھی ان کے اشعار قاری کو اپنے داخل کا المیہ محسوس ہوتے ہیں۔

اوپر ابھر کے آگئیں اندر کی گرمیاں
پانی پڑا بدن پہ تو جلنے لگا بدن

ہر طرف ہے لہو لہو منظر
ایک ہندوستان ہے مجھ میں

ڈھونڈ رہے ہیں حشمی صاحب
شہروں میں بھی سوندھی مٹی

احمد کمالؔ کی شعری کائنات اپنے اطراف اجالوں اور خوشبوئوں کا ہالہ ترتیب دیتی ہے ۔ان کے یہاں زخموں سے گلاب اور آنسوئوں سے چراغ کا کام لیا جاتا ہے ۔ان کے فکری جہان میں آوازیں اپنا پیکر رکھتی ہیں اور انداز سماعت کئے جاتے ہیں ،آنکھیں گفتگو کا ہنررکھتی ہیں اور دل نگاہوں کا کام کرتے ہیں ۔ وہ اضطراب کے لمحوں سے سکون کشید کرتے ہیں اور شادمانیاں ان کے لئے خلش کا باعث ہوتی ہیں ۔ان کا غم نوحہ کی فریاد نہیں کرتا ہے بلکہ وفور ِنشاط ، ولولہ ، امنگ اور حوصلوں کا وسیلہ بنتا ہے ۔ وہ فکر کے خارزار سے گزرتے ہوئے لہو لہان بھی ہوجاتے ہیں لیکن بطون ذات کی روشنی بکھیرنے کا عمل جاری رکھتے ہیں ۔ان کا آہنگ سخن اپنا جواب آپ ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری میں جس انداز سے پرانے موضوعات کو نئی لفظیات میں پرویا ہے اور نئے موضوعات کوجس جدید حسیت کے ساتھ برتا ہے وہ عدیم المثال ہیں :

خواہش دل لب پہ آنے کے لئے بے چین ہے
گھر کی عورت کر رہی ہے فاحشہ ہونے کی ضد

بے جان جسم میں چلو حرکت تو کچھ ہوئی
دل غم زدہ ہوا تو مسرت ہوئی مجھے

شدت غم بھی علاج غم ہی ہوتا ہے کمال ؔ
بڑھتی ہیں تاریکیاں تو روشنی پاتا ہوں میں

محبتوں کی زباں اب نہیں سمجھتے لوگ
پرانے وقتوں کا سکہ نہیں ہے چلنے کا

’’ردعمل ‘‘ کی شاعری یقینی طور پر شعور و آگہی ،فہم و ادراک ، کیف و وجدان، فکر و فن ، رچائو و ہنر داری سےمتصل اور حرف و لفظ کے تمام تر محاسن سے متصف ہے یہی سب ہے کہ اس کی غزلیں معنویت، اثر پذیری اور دلکشی کا حقیقی مرقع نظر آتی ہے۔

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں چل رہا ہوں قدم سے قدم ملائے بغیر
میں اس کے ساتھ ہوں اس کی نظر میں آئے بغیر

یہ میرے درد کی دولت عجیب دولت ہے
کہاں سے آتی ہے اتنی مرے کمائے بغیر

میں اپنے آپ کی تشریح کر نہیں سکتا
زمانہ پڑھتا ہے مجھ کو سمجھ میں آئے بغیر

تم اپنے دل کو بھلا کیسے کہہ رہے ہو دل
کوئی بھی درد سہے، کوئی زخم کھائے بغیر

یہی سبب ہے کہ حیران ہیں مری آنکھیں
دکھائی دیتے ہیں کچھ خوب نیند آئے بغیر

تُو میرے کمرے میں آکر کہیں چھپا ہے کیا
اجالا سا ہے ہر اک سُو دیا جلائے بغیر

کوئی بھی بات نہیں ہوتی بے سبب، لیکن
مجھے وہ چھوڑ گیا ہے سبب بتائے بغیر

میں بیٹھے بیٹھے یہ محسوس کرنے لگتا ہوں
وہ میرے پاس ہے میرے قریب آئے بغیر

غزل کماؔل کی ہے تو غزل کمال کی ہو
کوئی پڑھے تو نہ رہ پائے گنگنائے بغیر

غزل
۔۔۔۔۔۔۔
مرے دیے! ترا نعم البدل رہا ہوں میں
تُو بجھ گیا ہے تو، اب دیکھ، جل رہا ہوں میں

یہ اور بات کہ ہم دونوں ہم قدم ہیں، مگر
وہ میرے ساتھ، نہ ساتھ اس کے چل رہا ہوں میں

یہ تُو کہ تیرا ہیولا کہ خواب ہے میرا
ذرا ٹھہر کہ ابھی آنکھیں مل رہا ہوں میں

وہ دوڑنے میں کہیں لڑکھڑاکے گر نہ پڑے
وہ جیت جائے سو آہستہ چل رہا ہوں میں

مہ و نجوم نے مجھ سے بہت گزارش کی
سو شام ہونے سے پہلے ہی ڈھل رہا ہوں میں

سفر کا شوق ہے، منزل کی کوئی چاہ نہیں
سو جان بوجھ کے رستے بدل رہا ہوں میں

قبول کرتے ہیں سب لوگ منھ بناکے مجھے
پرانے نوٹ کی مانند چل رہا ہوں میں

مرے دماغ پہ دل غالب آرہا ہے کماؔل
ہر ایک چاپ پہ باہر نکل رہا ہوں میں

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے خط میں لکھا کہ ”میں خوش ہوں“
میں نے بھی لکھ دیا کہ ”میں خوش ہوں“

اس نے پوچھا کہ خوش میں ہوں کہ نہیں
مجھ کو کہنا پڑا کہ میں خوش ہوں

جب تلک تیرا غم میسر تھا
دل یہ کہتا رہا کہ میں خوش ہوں

بھید کھلتا نہیں مرا مجھ پر
کیا پتہ غمزدہ کہ میں خوش ہوں

زندگی سے نہیں ہے خوش کوئی
حوصلہ ہے مرا کہ میں خوش ہوں

اسکی زلفوں کو چھُو کر آئی ھے
کہہ رہی ھے ہوا کہ میں خوش ہوں

مجھ کو غمگین دیکھ کر کوئی
اس قدر خوش ہوا کہ میں خوش ہوں

قدرِ غم میں نہ کرسکا تھا کماؔل
سو ملی ہے سزا کہ میں خوش ہوں

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
خبردار! میں حق نوا آدمی ہوں
مرے پاس مت آ، برا آدمی ہوں

ہر اک درد سے ماورا آدمی ہوں
بتاؤ میں پتھر ہوں یا آدمی ہوں

مرے دل کو تم نے دھڑکنا سکھایا
مجھے اب یہ لگنے لگا آدمی ہوں

کبھی میں رہا کرتا تھا اپنے گھر میں
میں اب گھر میں رکّھا ہوا آدمی ہوں

سمجھتا رہا دیوتا کوئی مجھ کو
میں کہتا رہا بارہا، آدمی ہوں

تری یاد اور میرے غم ہمسفر ہیں
میں تنہا نہیں قافلہ آدمی ہوں

جو قیس اور فرہاد کا سلسلہ ہے
اسی زمرے کا تیسرا آدمی ہوں

مجھے منتروں کی ضرورت نہیں ہے
کئی سانپوں کا میں ڈسا آدمی ہوں

میں اب ہوگیا ہوں کماؔل اتنا چھوٹا
مجھے لگتا ہے میں بڑا آدمی ہوں

Previous articleسینئر صحافی ایم ودود ساجد روزنامہ’انقلاب‘ نارتھ ایڈیشن کے نئے ایڈیٹر منتخب
Next articleنارنگ ساقی : ایک تعارف از: ” انسان گروپ” مغربی بنگال

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here