اشعربھائی!
’اثبات‘ کا نیا شمارہ مجھے بھی مل گیا ہے۔ فیس بک پر اس کا بہت چرچا ہے۔ میں فیس بک پر اپنا ردعمل بہت کم پیش کرپاتا ہوں کیوں کہ اس کی نوعیت بہت عارضی ہوتی ہے ۔ فیس بک پر ہزاروں فیس یعنی چہرے ہوتے ہیں اور ہر چہرہ بنیادی طور پر دوسرے چہرے کے لیے اجنبی ہوتا ہے۔ یہ ایک بھری پُری سڑک پر لوگوں سے ٹکرانے جیسا ہوتا ہے؛کبھی مسکرا کر ، کبھی سوری بول کر اور کبھی گالی دے کر۔ فیس بک دوست وغیرہ کو میں مانتا نہیں۔ اس معاملے میں اصل پٹھان واقع ہوا ہوں اورپٹھان کی دوستی کے بارے میں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ جو ذاتی زندگی میں میرے دوست ہیں ، انھیں فیس بک کی پُر ہجوم سڑک پر چلتے وقت دُور سے ہی دعا سلام کرلیتا ہوں کیوں کہ شام کو ہم گھر پر یا کسی ریستوران میں بیٹھنے ہی والے ہیں ورنہ ایک نجی فون یا پھر ایک خط کے ذریعہ اصل دعا سلام تو ہونے ہی والی ہے۔ سوشل آدمی ہوں نہیں تو سوشل میڈیا میرے کام کی زیادہ نہیں بلکہ وقت کی بربادی یا آئینے کے سامنے اداکاری کرکے اپنے چہرے کو دلیپ کمار کا چہرہ سمجھتے ہوئے بالآخر نرگسیت کا شکار ہوجانے کا میدان ہے بلکہ شکار کی مناسبت سے جنگل ہے جہاں ہم بیک وقت شکار اور شکاری دونوں کا پارٹ ادا کرتے ہیں۔ ان باتوں کی معذرت کے ساتھ، مجھے بھی محسوس ہوا کہ ’اثبات‘ کے نئے شمارے کے بارے میں کچھ کہنا چاہیے یعنی فیس بک پر ،تاکہ سند رہے۔ حالاں کہ فیس بک کی سند کیا اور چہروں کی پہچان کیا کہ وہاں تو ہر چہرے پر ماسک لگا ہے۔ ایک کارنیوال چل رہا ہے ۔
مجھے پہلی بات تو یہ کہنی ہے کہ صرف یہی شمارہ کیوں، ’اثبات‘ کا تو ہر شمارہ اتنا ہی معیاری اور انوکھا ہوتا ہے۔ پہلے شمارے سے اس حالیہ شمارے تک اشعرنجمی کو ایک چسکا لگ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنا ریکارڈ خود ہی توڑتے ہیں، دوسرا خیر ان کے ریکارڈز کیسے توڑے گا، یہ کسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ یہ تو خود اشعرنجمی کے بس میں بھی نہیں بلکہ اس جنون کے بس میں ہے جس کے بس میں اشعر نجمی ہیں۔ اشعر مجھے ایک بڑے بیانیہ، ایک بڑی تخلیق کی روحانی بے چینی کو اپنے وجود پر طاری کیے رہنے والے فرد کی طرح نظر آتے ہیں۔ ’اثبات‘کی ترتیب اور ان کے اداریے اس بڑی اور نادیدہ تخلیق کی اکثر و بیشتر نظر آجانے والی جھلکیاں ہیں۔ تخلیقی حسیت اور تخلیقی ذہانت کا ایسا بھر پور امتزاج بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ ابھی ابھی تو انھوں نے اردو کو ایک شاہکار اور بے مثال ناول دیا ہے اور میں اس پر اپنی دانست میں کچھ لکھ بھی چکا ہوں۔ اب ’اثبات‘کے اس تازہ شمارے پر کیا لکھوں اور پھر تازہ شمارے پر ہی کیوں، پرانے شمارے پر بھی کیا لکھوں؟ جو بھی لکھوں گا وہ میری مسرت اور حیرت کا اظہار ہی ہوگا۔
ہم عصر اردو رسالوں یا جن رسالوں سے میرا سابقہ پڑا، وہ زیادہ نہیں ہیں / تھے۔ ’شب خون‘، ’سوغات‘، ’آج‘، ’دنیا زاد‘ ، ’اوراق‘، ’آج کل‘ اور ’ذہن جدید‘۔ ان میں سے ہر رسالے کی اپنی ایک مخصوص فضا تھی یا انفردایت تھی ۔ ’آج‘ کو چھوڑ کر یہ سب بند ہوچکے ہیں اور ’آج کل‘ کبھی بند ہونے والا نہیں ہے مگر خورشید اکرم نے اپنے زمانے میں اس رسالے کو نئی بلندیوں سے روشناس کرایا تھا۔ وہ بات نہ ان سے پہلے تھی اور نہ ان کے بعد پیدا ہوسکی۔ خورشید اکرم افسانہ نگار زیادہ بڑے ہیں یا مدیر، فیصلہ کرنا مشکل ہے مگر مدیر بہرحال افسانہ نگار کا بدل نہیں ہوسکتا۔ ’اثبات‘ کے زیر نظر شمارے میں بھی ان کا ایک بہت ہی عمدہ افسانہ شامل ہے۔ اشعرنجمی کے بارے میں بھی یہی بات ہے کہ وہ آخر ناول نگار بڑے ہیں یا مدیر، فیصلہ کرنا مشکل ہے مگر بہرحال مدیر ناول نگار کا بدل تو نہیں ہوسکتا اور پھر ناول بھی کیسا؟ ’اس نے کہا تھا‘ جیسا۔
چند برسوں سے عادل رضا منصوری ’استفسار‘ نام سے جو رسالہ نکال رہے ہیں، وہ بھی بہت عمدہ ہے مگر وہ بھی تخلیقی آدمی ہیں، اچھے شاعر ہیں۔ اب دیکھیے کہ جن رسالوں سے میرا سابقہ پڑا، ان سب کے مدیر یا تو شاعر تھے یا فکشن لکھنے والے (اجمل کمال کے استثنیٰ کے ساتھ، اگرچہ ان کی تنقید بہت تخلیقی ہوتی ہے)۔ اس لیے میرا ماننا یہ ہے کہ صحافت(چاہے وہ ادبی صحافت ہو یا نہ ہو) بغیر تخلیقی جنون کے کسی کام کی نہیں ہوتی۔ سیاسی، معاشرتی، ثقافتی ؛ کوئی بھی موضوع ہو، بغیر تخلیقی زبان کے دو کوڑی کا ہوتا ہے۔ اس لیے اشعرنجمی نے حالیہ شمارے میں جو اداریہ لکھا ہے، وہ اسی قلم کا کمال ہے جس نے ’اس نے کہا تھا‘ لکھا ہے۔ میں دراصل اپنی حیرت کو منطق دے رہا ہوں اور اس جادوئی قلم کو عقلیت کے سانچے میں فٹ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں۔
زیر نظر شمارے کے مشمولات بہت عمدہ اور معیاری ہیں ۔ مجھے ابرار مجیب کا افسانہ بھی بہت پسند آیاکیوں کہ اس میں ماحول سازی بہت کی گئی ہے اور وہ لکھنے کی عجلت میں نہیں ہیں۔ یہ افسانہ ’آج‘ میں بھی شائع ہوچکا ہے، یہ مجھے بعد میں پتہ چلا۔
عتیق اللہ صاحب کا مضمون بھی تخلیقی وفور کی ایک جھلک ہے اور اسی رو میں لکھا گیا ہے۔
ناصر عباس نیر کی 9تحریریں یقیناً شمارے کے وقار میں اضافہ کرتی ہیں۔ ناصر عباس نیر میرے عہد کے نابغہ روزگار ہیں، حالاں کہ نابغہ روزگار کے ساتھ ’عہد‘ کا سابقہ لگانا قول محال ہے۔ ناصر عباس نیر کی رسالے میں بھرپور شمولیت ایک مستند حوالہ ہے۔
بہرحال، جناب آپ نے ہمیشہ ہی اس قسم کے کارنامے انجام دیے ہیں،لوگوں کو انگشت بدنداں کردینے والے۔ میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کے قلم کو دعا دینے کے لیے ابھی میری عمر کم ہے۔ ہم عصریت کی دھند اور غبار میں دعائیں آسمان تک نہیں پہونچ پاتیں، وہ آوارہ ہواؤں کی طرح بھٹکتی پھرتی ہیں۔ اس لیے آپ کو صرف یہ مشورہ دے سکتا ہوں (دعا نہیں) کہ اپنے اس زبردست تخلیقی جنون سے کبھی آنکھیں نہ موڑیے گا، اس قلم اور اس روشنائی کا بہت احترام کیجیے گا جس نے آپ کو یہ طاقت بخشی ہے کہ اپنے الفاظ کے ذریعے آپ ایک خلقت کو ہمیشہ محو حیرت دیکھیں۔
جہاں تک میرا سوال ہے، مجھ میں تو حیرت زدہ ہونے کی سکت بھی اب باقی نہیں۔
ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں، قبول کیجیے۔