آہ! حامد مرزا : تمہاری خوبیاں زندہ تمہاری نیکیاں باقی از: عارف حسن وسطوی

0
170

آشیانہ کالونی ،باغ ملی ،حاجی پور (بہار)

حامد مرزا صاحب کے اچانک انتقال کی خبر فیس بک پر دیکھی تو آنکھیں نم ہو گئیں (انا للہ وانا الیہ راجعون) مجھے قیام حیدرآباد اور ای ٹی وی اردو کی ملازمت کے ایک ایک دن بےساختہ یاد آنے لگے جہاں حامد مرزا صاحب سے شب و روز کی ملاقاتیں تھیں- حامد مرزا کو جہاں تک میں نے دیکھا اور محسوس کیا انہیں ایک مخلص، حق گو، صاف طبیعت، نرم مزاج اور خوددار انسان پایا- صحافت کا پیشہ پرنٹ میڈیا ہو کہ الیکٹرانک میڈیا ہر جگہ حق گوئی اور خودداری کا متقاضی ہوتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ آج کی دنیا میں بالخصوص اس ملک میں جس زوال کا سامنا میڈیا کو کرنا پڑاہے شاید کسی دوسرے شعبے کو نہیں کرنا پڑا ہے – حد تو یہ ہے کہ اب ذلالت ورسوائی کا تماشا سر بازار کرنے کے لیے لوگ سات سمندر پار بھی ہو جایا کرتے ہیں – بہرکیف حامد مرزا صاحب کے انتقال کی خبر جیوں ہی مجھے ملی میں نے ان کے گھر پر فون کیا – ان کی بھتیجی نے بتایا کہ ایک ہفتہ سے بیمار تھے- یرقان کے مریض تھے دوائیاں چل رہی تھیں-مگر افاقہ نہیں تھا – مورخہ یکم اکتوبر بروز جمعہ صبح کے وقت مالک حقیقی کا بلا وا آپہنچا مرزا صاحب نے داعئ اجل کو لبیک کہہ دیا-

حامد مرزا صاحب اسپورٹس صحافی کی حیثیت سے شہر حیدرآباد میں اپنی ایک پہچان رکھتے تھے-ای ٹی وی اردو میں بھی زیادہ تر وہ اسپورٹس کی خبریں کور کیا کرتے تھے- نیوز ڈسک پر شفٹ کے مطابق اگر مرزا صاحب موجود ہوتے تو نشر کی جانے والی خبروں کو تیار کرنے والے دیگر ذمہ داران کو کھیل کی خبروں کی طرف توجہ کرنے کی نوبت ہی نہ آتی تھی – مرزا صاحب کھیل کی ہر چھوٹی بڑی خبروں پر پینی نظر بنائے رکھتے تھے اور ذمہ داران کو بروقت کھیل کی اہم خبروں سے باخبر کرتے تھے – مرزا صاحب کو کھیل سے ہٹ کر ملکی و عالمی سطح پر سیاسی، سماجی، ثقافتی، ادبی، مذہبی اور لسانی خبروں سے بھی دلچسپی تھی لیکن کھیل اور مرزا عاشق و معشوق کے مانند تھے- ایک دوسرے سے جدا ہونے کا تصور بھی محال تھا- ای ٹی وی اردو ڈیسک پر مختلف نوعیت کی خبروں کی نشرواشاعت کے لیے ملازمین کی منتقلی بھی ایک روٹین ورک کی طرح انجام پاتا تھا – کبھی جزا کے طور پر تو کبھی سزا کے طور پر- لیکن مرزا صاحب کی دنیا بدلنے کی تمام کوششیں جزوقتی ہی ہو کر رہ جاتی تھیں – اس طرح کھیل کی خبروں پر مرزا کا راج پاٹ برقرار رہتا تھا-

حامد مرزا باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے- وہ ہمہ وقت چاق و چوبند اور تازہ دم رہنے کے عادی تھے- ان کے چلنے کا ایک مخصوص انداز تھا – چھوٹے قد کے باوجود وہ پورے طنطنے کے ساتھ چلتے تھے- ہر وقت پان سے منھ لال رہتا تھا – اپنے ہینڈ بیگ میں بڑے اہتمام سے پان رکھتے تھے اور شوق سے دوسروں کو بھی پیش کرتے تھے – ان کی بصارت بہت کمزور تھی- موٹے گلاس کا چشمہ لگاتے تھے پھر بھی کمپیوٹر پر کام کرتے وقت انہیں دشواری ہوتی تھی- کمپیوٹر اسکرین پر بہت قریب جا کر کام کرنے کی مجبوری نے ایک عادت کی شکل اختیار کر لی تھی – وہ دوسروں سے کلام کرتے وقت بھی اتنے قریب ہو جاتے کہ پان کے چھینٹے اڑ پڑتے لیکن محبت مرزا میں گرفتار ہو کر مسکراتے ہوئے لوگ محظوظ ہوتے –

حامد مرزا پرلطف انسان تھے- بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی کی فطری صلاحیتوں نے مرزا کو محبوب و مقبول بنایا تھا- باتوں باتوں میں ہنسی مزاق کا پہلو تلاش لینا مرزا کی پہچان تھی- میں اور برادرم لکشمن سپرے( بنارس) جو ان دنوں ای ٹی وی اردو میں ملازم تھے ارادتاً کچھ ایسی باتیں کہہ جاتے جس سے مرزا صاحب کی رگ حس پھڑک اٹھتی- چونکہ مرزا پر ایک جنون کی کیفیت ہر وقت طاری رہتی تھی اس لئے وہ بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے- دراصل وہ کسی کی سنتے ہی نہیں تھے بلکہ ہمیشہ سنایا کرتے تھے- بغیر کومہ، فل اسٹاپ وہ زور آواز میں بولتے جاتے اور درمیان میں کبھی محتاط تو کبھی غیر محتاط انداز میں قہقہے لگاتے- اگر کوئی شخص ایک دو دن کی غیر حاضری کے بعد آفس پہنچتا تو مرزا صاحب غیر حاضری کی وجہ جانے اور سنے بغیر اپنے طور پر تمام ممکنہ وجوہات کو یک زبان بیان کر جاتے – ان کے خاموش ہونے کے بعد جب اگلا شخص یہ بتاتا کہ میں طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے غیر حاضر رہا تب جا کر مرزا صاحب عاجزی کے ساتھ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے” ایسا…معذرت چاہتا ہوں بھائی میں بھی کیا کیا قیاس کرنے لگا تھا آپ کے بارے میں-”

حامد مرزا سے متعلق کوئی بھی گفتگو ان کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کے تذکرے کے بغیر ادھوری مانی جائے گی-پندرہ اگست یا 26 جنوری کا وہ واقعہ بہت مشہور ہے جب نیوز ڈیسک پر ایک خاتون سفید ساڑی میں ملبوس تھیں-یہ دیکھ کر مرزا کی رگ حس پھڑک اٹھی- فوراً بول اٹھے”آپ سفید ساڑی میں ملبوس ہیں ہم سب مر گئے ہیں کیا؟” یہ سننا تھا کہ پورا نیوز ڈیسک قہقہے میں ڈوب گیا- رمضان کے دنوں میں صبح سے شام تک ڈیوٹی کے درمیان ظہر کی نماز کے بعد مرزا صاحب کچھ دیر اس کمرے میں آرام کرتے جس میں نماز کا اہتمام ہوا کرتا تھا-آرام کی حالت میں ایک بار مرزاکو آنکھ لگ گئی – نیند سے بیدار ہوئے تو کسی نے ٹوک دیا کہ آپ ڈیوٹی کے وقت بڑے آرام سے سو رہے تھے- مرزا صاحب کا جواب حاضر تھا” رمضان میں سونا بھی عبادت ہے” – ایسے ان گنت مواقع آئے جب مرزا کی حاضر جوابی نے محفل کو زعفران زار بنا دیا – نیوز ڈیسک پر مرزا کی موجودگی ماحول کو تروتازہ رکھنے کے لئے کافی ہوتی تھی-
مرزا صاحب ہم جیسے پردیسی لوگوں پر ہمیشہ مشفق ومہربان رہتے تھے- اپنوں جیسی محبت و ہمدردی کا اظہار کرتے تھے- بارہا لنچ بکس میں کھانے پینے کی اشیاء اس مقدار میں لاتے کہ ہم لوگوں کی بھی ضیافت کرتے – ایک بار مرزا صاحب نے دن کے وقت مجھے اپنے ساتھ کھانے کے لئے بیٹھنے پر مجبور کردیا- لنچ بکس کھولتے وقت انہوں نے کہا کہ آج میں ایک ایسی چیز لے کر آیا ہوں جس کی آپ کو سخت ضرورت ہے – لنچ بکس کھلا تو ہم دونوں ٹھہاکے لگا کر ہنس پڑے- لنچ بکس میں “مغز” تھا- مجھے خوب یاد ہے کہ حیدرآباد میں جب ای ٹی وی اردو ڈیسک کو خواتین کی موجودگی سے مزئین کرنے کی عملی کوشش شروع ہوئی تو حیدرآباد سے لیکر کشمیر تک خواتین کی خدمات حاصل کی گئیں- ایک دن ایسا ہوا کہ حامد مرزا صاحب چھٹی پر تھے – غالباً اس دن دو خواتین نے آفس جوائن کیا تھا- اگلے دن کینٹین میں، میں اور حامد مرزا ناشتے پر ساتھ بیٹھے- حامد مرزا کو خبر دی گئی کہ باس نے کل دو لڑکیوں کو جوائن کرایا ہے- حامد مرزا چھوٹتے ہوئے بولے “اللہ رزق دینے والا ہے” – نومبر 2009 کے آخر میں، میں حیدرآباد کو خیرباد کہہ کر اپنے وطن بہار لوٹ آیا اور پٹنہ میں ایک نیوز چینل سے منسلک ہو گیا- اتفاق سے اگلے ہی سال نومبر 2010 میں پٹنہ میں ایک سڑک حادثے کا شکار ہو کر قریب چھ ماہ کے لئے On Bedہوگیا – حادثے کی خبر کے بعد مرزا صاحب اکثر و بیشتر خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کرتے رہے- اس درمیان بہار میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا – 4 جنوری 2011 کو اس وقت کے پورنیہ کے ممبر اسمبلی راج کشور کیسری صاحب کو روپم پاٹھک نامی خاتون نے چھرا گھونپ کر موت کے گھاٹ اتار دیا- خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی- 5 جنوری 2011 کی صبح حامد مرزانے مجھے فون کیا اور اپنے مخصوص مزاحیہ لہجے میں یوں مخاطب ہوئے” کیا میاں تمہارے بہار میں عورتاں کیا کیا نئیں کررہی مرداں کا، ہم کو تشویش ہو رہی ہے آپ کے تعلق سے کہ آپ تو بستر پر ہو، بھاگ بھی نئیں سکتے-” حامد مرزا بولتے رہے اور میں بستر پر پڑا محظوظ ہوتا رہا-
حامد مرزا کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دل کے صاف انسان تھے- کسی سے اگر کسی بات پر نوک جھونک بھی ہو جاتی تو وہ اس واقعہ کو گرہ باندھ کر بغض و کینہ کی شکل نہیں دیتے تھے اور اس موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ کسی طرح معاملہ رفع دفع ہو جائے اور میل و محبت کی فضا بحال ہو جائے –

مرزا صاحب جتنے ہنس-مکھ اور بذلہ سنج تھے ان کے باطن میں اتنی پریشانیاں بھی تھیں- انھیں مالی تنگی کا سامنا تھا- خود داری نے جھکنے کی لعنت پر روک لگا رکھی تھی-اس لیے بہت زیادہ دنوں تک کسی ادارے سے منسلک رہنا ممکن نہ تھا- ادھر ادھر ملازمت ملتی رہی اور چھوٹتی رہی- تنخواہ قلیل تھی – ذمہ داریاں زیادہ تھیں- لیکن ضبط اور قناعت کا یہ عالم تھا کہ کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ آیا- ایک پختہ دل انسان کی طرح وہ تھوڑے میں گزر بسر کرکے خوش وخرم رہنے کا ہنر جانتے تھے- یقیناً یہ خوبیاں ہر کس و ناکس میں نہیں پائی جاتیں –

حامد مرزا صاحب اب جب کہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی اچھائیاں ہمارے حافظے میں رہیں گی- اللہ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت مرزا صاحب کی لغزشوں اور خطاؤں کو درگذر فرما کر انہیں جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں – آمین-
تمہیں کہتا ہے مردہ کون، تم زندوں کہ زندہ ہو تمہاری خوبیاں زندہ تمہاری نیکیاں باقی

Previous articleوہ صاحبِ کلام، تھا صاحبِ کمال از: امتیاز وحید
Next articleحضرت مولانا احمد رضا خان کی شاعری میں میلاد مصطفیٰ از: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشیدپور

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here