“آسان ترجمہ وتفسیر”میرے مطالعہ کی روشنی میں از:عبد الرحیم برہولیاوی

0
142

ابھی میرے سامنے آسان ترجمہ وتفسیر قرآن مجید ہے،یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے،اول جلد میں ١تا١٥پارہ کی تفسیر اور جلد دوم میں١٦تا٣٠پارہ کی تفسیر موجود ہے آج سے آٹھ دہائ قبل محترمہ محمود النساء بیگم مرحومہ نے اس اہم کام کو انجام دیا تھا،اس تفسیر کو دنیا کے کتب خانوں میں خواتین کے قلم سے نکلنے والے تراجم و تفاسیر میں اولیت کا شرف حاصل ہے،محمود النساء بیگم صاحبہ حیدرآباد کی رہنے والی تھیں،١٧٩٧ء میں ان کی پیدائش ہوئی،آپ کے والدسید محمد یو سف الدین مرحوم صوبہ دار گلبرگہ تھے،اور والدہ نجم النساء بیگم مرحومہ حیدرآباد کی جاگیردار خاندان سے تھیں،مرحومہ کو تین یا چار بار حج کی سعادت کا بھی شرف حاصل ہے،اور عراق ،شام و فلسطین کے بھی سفر کا موقع ملا،محترمہ کی دلی خواہش تھی کہ لوگ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں،اسے صرف طاقوں میں سجا کر آنکھوں سے لگا کر محدود نہ رکھیں،بلکہ خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی عمل کی تلقین کریں،اس دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لئے مختلف تراجم قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے آپ نے زمانہ کے اسلوب و انداز میں ١٩٤٣ء میں قرآن کا آسان ترجمہ اور مختصر تفسیر مکمل کر لیا،اور اس کا نام”تفسیر قرآن مجید مع ترجمہ احکام قرآنیہ اردو” لکھا،اپنی زندگی میں ہی کئ سو نسخے چھپوا کر تعلیم بھی کی،مرحومہ کی وفات ماہ ستمبر ١٩٦٥ء میں ہوگئ۔

ابھی حال ہی میں طبع دوم تحقیق و تعلیق کا کام نوجوان عالم دین میرے دوست مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام (حیدرآباد )اور کتابت و کمپیوٹر کا کام محمد نصیر عالم سبیلی ،باہتمام‌ محترمہ ذکیہ کوثر صاحبہ صدر معلمہ جامعہ ریاض البنات (ملک پیٹ حیدرآباد)اور ناشر محترمہ مہر النساء بیگم مع اہل و عیال نے اس اہم کار خیر کو انجام دیاہے،اول جلد ٦٨٨صفحات میں اور جلد دوم میں ٩٩٤صفحات ہیں،بہت خوبصورت عمدہ صفحات اور وزنی تفسیر ہیں،میں ان تمام لوگوں کو مبارکبادی پیش کرتا ہوں اور ور دعا گو ہوں کہ خدا ان سب کو قبول فرمائے۔

اسے آپ بھی جامعہ ریاض البنات حیدرآباد،خیر النساء حیدرآباد،مفتی محمد سراج الہدی ندوی سے بھی حاصل کر سکتے ہیں،جلد اول میں ابتدائیہ میں تحقیق و تعلیق محمد سراج الہدی ندوی ازہری نے صفحہ نمبر ٧سے صفحہ ١٨ تک اپنی بات بہت اچھی انداز میں پیش کی ہے،موصوف نے اپنے علمی تحقیق و جائزے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے،ابھی تک مکمل قرآن کریم کے جتنے بھی ترجمے و تفاسیر کسی بھی زبان میں منظر عام پر آئی ہے وہ مرد حضرات کے قلم سے ہے، یہاں علمی دنیا میں ابھی تک تین خواتین کے نام آۓ ہیں جن میں بہلا نام محمود النساء بیگم کا ہی ہے،اور موصوف نے مکمل قرآن مجید کی خواتین ترجمہ مفسرہ کے عنوان سے طوبی‌ مضمون ٢٠١٧ء کے سہ ماہی ترجمان “صفا “میں لکھا ہے۔

بہت سارے اضافہ موصوف نے اس میں کی ہے ،حاشیہ نمبر ،قرآنی عربی متن ہی تھے جسے ترمیم کے ساتھ قرآنی متن کو پوری صحت کے ساتھ درج کیا ہے،اک کے بعد مقدمہ فقیہ العصر مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی نے لکھا ہے،جو چار صفحات پر مشتمل ہے،مولانا لکھتے ہیں دنیا میں قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو باالکل بے آمیز اور محفوظ ہے،ہندوستان ان خوش نصیب ملکوں میں ہے جس کی مقامی زبان میں بہت پہلے قرآن مجید کا ترجمہ ہوا ہے،مولانا لکھتے ہیں شاید کتاب کی اصل مؤلفہ محترمہ محمود النساء بیگم صاحبہ ۱۹۶۵ء کے حاشیہ خیال میں بھی نہ رہا ہوگا کہ ان کی یہ علمی و قلمی خدمت ۷۷سال کے وقفہ کے بعد دوبارہ منظر عام پر آۓ گی،لیکن جو کام اخلاص سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جاتا ہے اس کی مثال اس بیج کی سی ہوتی ہے جسے مٹی کے نیچے دبا دیا جاتا ہے،اور اس کا وجود گم ہوجاتا ہے،لیکن سے ہرا بھرا پودا نکلتا ہے،اور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے،قلبی تاثرات حضرت مولانا شمیم آزاد قاسمی مکی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ حیدرآباد وسابق معین مدرس دارالعلوم دیوبند نے قلم بند کیا ہے جو صفحہ ۲۷تا ۳۰پر ہے موصوف نے مفتی سراج الہدی ندوی ازہری صاحب کا تعارف بھی بہت تفصیلی اور اچھے انداز میں پیش کیا ہے،مولانا کی خوبیاں درس و تدریس کا انداز اور لکھنے پڑھنے کا ذوق و شوق تقریر کا انداز اور اساتذہ میں مقبولیت سب نہیں ملتی ہے،اخیر میں مولانا لکھتے ہیں زیر نظر،”آسان ترجمہ تفسیر”مولانا کی تحقیق و تعلیق اور ترتیب نو کا حین مرقع ہے،”تمہید”محترمہ محمود النساء بیگم مرحومہ صفحہ ۳۲تا۳۵پر ہے،اس کے مؤلفہ کا تعارف صفحہ ۳۵تا۳۸ ہے جو مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری نے لکھا ہےجتنی معلومات حاصل ہوئ مولانا نے حاصل کرکے تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے،شکر و اعتراف محترمہ ذکیہ کوثر صاحبہ نے کیا ہے،عکس تحریر بھی طبع اول کے دو صفحات کے پیش کۓ گۓ ہیں یہ باب صفحہ ۱۴ پر ختم ہے،دوسرا باب” کلمات اکابر علماء کرام ہے”پیش لفظ مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم نے لکھا ہے،محترمہ محمود النساء بیگم (١٩٦٥)کے اس تفسیری کام کا ایک عالم دین مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری نے جائزہ لیکر جہاں محسوس کیا توضیح کی اور موٹ چڑھاۓ،اس کے ذریعہ اس کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے،میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور معتبر بناۓ آمین۔

کلمات تبریک خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی دامت برکاتہم نے لکھا ہے،تقریظ مولانا محمد سعید الرحمن ندوی اعظمی صاحب نے لکھا ہے جو صفحہ ۷۴تا۵۰پر ہے،مولانا لکھتے ہیں کہ میں مولانا محترم محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری زاد مجدہ کو دل کی گہرایوں سے مبارکباد دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی عظیم کتاب قرآن کریم کی خدمت کی توفیق عطا فرما ئ اور مرحومہ مترجمہ و مفسرہ کی روح کو شادمانی اور شادابی کا تحفہ عطا کیا،اللہ تعالیٰ اس مبارک کوشش کو قبول فرمائے اور اپنے نیک بندوں میں سب کو شمار کرے،تاثرات: حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم امارت شرعیہ نے لکھا ہے، جو صفحہ ۵۱پر درج ہے،اس کا تیسرا عنوان یا باب سمجھیۓ تأثر ات اہل علم و فضل موجود ہے،حرف چند کے عنوان سے حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ وناظم وفاق المدارس الاسلامیہ ،رکن تاسیسی آل انڈیا ملی کونسل ،و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا ءبورڈ،مدیر اعلی ہفتہ واری نقیب امارت شرعیہ نے قلم بند کیا ہے جو صفحہ ۵۲تا۵۳پر ہے،حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی خدمت جسوزاوۓ سے بھی کیا جاۓ باعث سعادت ہے ،اسے دینی خدمت کا حاصل سمجھنا چاہیے کیونکہ سارے علوم اصلا قرآن کریم ہی کی خدمت کے لئے ہے،پھر حضرت مولانا عبد الباسط ندوی نے “خواتین کے لئے مشعلِ راہ کے عنوان دے کر اپنے تاثرات ۵۴تا۵۵صفحہ پر لکھا ہے،اس کے بعد ایک کامیاب کوشش عنوان سے حضرت مولانا نعمان بدر القاسمی ندوی ،اس کے بعد قابلِ رشک کام حضرت مولانا محمد سیف اللہ قاسمی صاحب ۵۸تا ۵۹صفحہ پر لکھا ہوا ہے،اس کے بعد حضرت مولانا سید ومیض ندوی صاحب”بہت تیری خدمت “عنوان دے کر لکھا ہے،جو صفحہ ۶۵تا۶۱پر ہے،اتنے سارے لوگ کے تأثر ات حاصل کرلینا کسی جوۓ شیر سے کم نہیں ہے مگر یہ سب قرآن کریم کی خدمت کی وجہ کر آسان ہوگیا،میں بھی مولانا محترم سراج الہدی ندوی ازہری صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے،اس تفسیر کی اشاعت کے وقت تک موصوف کے والد ماجد ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیاء رحمانی اور جد امجد ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی حیات سے تھے لیکن اب دونوں گزشتہ سال خدا کو پیارے ہو گۓ ،اللہ تعالیٰ دونوں کی بال بال مغفرت فرمائے۔

Previous articleتحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابلِ فراموش ہے: پروفیسر نجمہ اختر (جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے زیرِ اہتمام شان دار مشاعرۂ جشنِ آزادی کا انعقاد)
Next articleبجھ گئے کتنے شبستانِ محبّت کے چراغ از: خورشید عالم داؤد قاسمی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here