:مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
(یومِ آزادی کی مناسبت سے خاص مضمون)
آزادی ہر انسان کا فطری و پیدائشی حق ہے، کسی بھی انسان کے لیے سب سے بڑاسرمایۂ حیات اس کی آزادی ہے؛ جب کہ غلامی دنیا کی سب سے بڑی ذلت اور بدترین لعنت ہے. بنیادی انسانی حقوق میں سب سے اہم حق : انسان کی آزادی کا حق ہے. ایک دن کی آزادی سالہا سال کی غلامی سے زیادہ عزیز ہے.
ایک آزاد انسان میں فکر کی وسعت، خیالات کی پرواز، ضمیر کی بیداری، احساس کا بانکپن، حوصلے کی بلندی اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہوتا ہے؛ لیکن یہ ساری خوبیاں انسانوں کے غلامی کی زنجیر میں جکڑنے کے بعد یا تو محدود ہو جاتی ہیں؛ یا بالکلیہ ختم ہو جاتی ہیں. غلامی کی مدت کے دراز ہونے کے ساتھ ساتھ کم ہمتی، پست حوصلگی؛ کم ظرفی، بے ضمیری اور بے حسی بڑھتی چلی جاتی ہے اور بتدریج انسان کا دل و دماغ کسی انقلابی فکر اور تعمیری منصوبے سے عاری ہوتا چلا جاتا ہے۔ غلامی کی انہی قباحتو کی بنا پر اسلام نے انسان کے لیے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی غلامی کو حرام قرار دیا؛ اگر یہ غلامی عقیدت اور مذہبی جذبات کے کے زیر اثر ہو تو اسے شرک قرار دیا. اسی طرح کسی بھی انسان کو جبرا غلام بنالینے کو ناجائز قرار دیا.
کسی کو زبردستی غلام بنانے کا جو رواج اور دستور پہلے سے مروج تھا، حالت جنگ کے علاوہ کسی بھی حالت اس کی اسلام نے بالکل اجازت نہیں دی۔
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں ارشاد فرمایا:
”اللہ تعالیٰ روز قیامت تین آدمیوں سے جھگڑا کرے گا،ان میں سے ایک شخص وہ ہوگا، جو کسی آزاد مسلمان کو غلام بنالے پھر اسے بیچ بھی دے ۔“(صحیح بخاری )
حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے حاکم فارس رستم کے درمیان میں پوری جرآت کے ساتھ اسلام کے نظام عدل کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا :.
لقد ابتعثنا اللهُ لنخرج العباد من عبادة العباد إلى عبادة رب العباد، ومن جور الأديان إلى عدل الإسلام، ومن ضيق الدنيا إلى سعة الدنيا والآخرة. (البدایہ والنہایہ، جنگ قادسیہ سنہ 14 ہجری کے ضمن میں)
یعنی خدا نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم لوگوں کو بندوں کی عبادت سے بندوں کے رب کی عبادت کی طرف اور ادیان و مذاہب کی ناانصافی سے اسلام کے عدل کی طرف اور دنیا کی تنگی سے آخرت کی وسعت کی طرف لے آئیں۔
اسلام نے رب العالمین کی حاکمیت اور الوہیت کا بنیادی عقیدہ کی تعلیم دے کر انسانوں کی غلامی کے خلاف مضبوط آواز بلند کی.
اسلام واحد نظام حیات ہے جس نے پہلی مرتبہ
انسانیت کو آزادی کے صحیح مفہوم سے واقف کرایا؛ انسان کو اس جیسے دوسرے انسانوں کی غلامی سے نکال کر اسے اپنے خالق و مالک کی عبادت و بندگی کی دعوت دی. مساوات انسانی کا عظیم الشان پیغام عام کیا اور اپنی تعلیمات میں، جسمانی ومادی آزادی کے ساتھ ساتھ عقیدہ، ضمیر، اظہار رائے وفکر اور زبان و قلم کی پائیدار آزادی کی ضمانت دی.
خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مجمع عام میں اپنے ایک گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہرانسان اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پید اہوا ہے۔ کوئی اسے غلام کیسے بنا سکتا ہے؟ (متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا؟)
حضرت عمر ابن خطاب نے اپنے قول وعمل سے “انصاف، وقار اور انسانیت” کے تصورات کو واضح فرما یا ، آزادی کی شمع روشن کرتے ہوئے ان جملوں نے انھیں ایک ایسا آئکن iconبنا دیا، جو مغرب اور مشرق کے مظلوم ومغلوب اقوام کو آزادی کا شعور اور غلامی کی زنجیر توڑنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ بقول شاعر مشرق :
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے سوال کے معنی ومفاہیم کو اپنے گورنر حضرت عمرو ابن العاص کی سرزنش تک محدود کرنے کا ارادہ نہیں کیا تھا، بلکہ یہ ایک ایسا سوال تھا جو انسانی تاریخ کے مستقبل کی طرف اشارہ کرنے والا تھا، جو اس اسلام کے نظام عدل کی عکاسی کرنے والا تھا، جوہر ناانصافی اور ظلم کو ختم کرنے کے لیے آیا تھا
آگے چل کر یہ جامع ترین جملہ انسانی حقوق سے متعلق تمام تنظیموں کے لیے کلید اور مشعل راہ بن گیا۔
لیکن تعجب کی بات ہے کہ آزادی کا ایسا جامع منشور پیش کرنے والے دین کو بعض متعصب اذہان کی طرف سے مطعون کیا جاتا ہے. اس تعلق سے اسلام کو نشانہ بنانے والے کج فہموں کو سمجھنا چاہیے کہ غلام بنانے کا طریقہ قدیم زمانے سے رائج تھا، اسلام نے بڑی حکمت عملی کے تحت اس کی زیادہ تر شکلوں کو ختم کرنے کا اقدام کیا. ابتدائی زمانے میں غلاموں کو بیک وقت آزاد بھی نہیں کیاجاسکتا تھا، اس سے بے شمار معاشرتی مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، چنانچہ انفرادی طور پر اسلام نے “فَکّ رَقَبَہ” (گردن چھڑانے یعنی غلام آزاد کرانے ) کی ایک زبردست اخلاقی تحریک شروع کی اور مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے غلاموں کو ازخود آزاد کردیں، تو عنداللہ وہ اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:
بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوة دے۔
(البقرہ:۱۷۷)
سورہ بلد میں ارشاد ہے:
ترجمہ:
مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھاناکھلانا۔)(البلد:۱۱-۱۶)
زمانۂ جاہلیت میں اسلام اور باندی خدمت گاری اور منافع حاصل کرنے کے اہم ذرائع تھے۔ اس لیے مالک انہیں آسانی سے الگ کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بڑے ہی حکیمانہ انداز میں غلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلہ میں اس آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آتش دوزخ سے بچائے گا”۔
(بخاری، مسلم. غلام کو آزاد کرنے کی فضیلت )
اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ٦٣ غلام آزاد فرمائے۔ آپ کی ازواج مطہرات میں سے صرف حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ٦٧ تھی۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رض نے اپنی زندگی میں ٧٠ غلاموں کو آزاد کیا۔
حکیم بن حزام رض نے ١٠٠، عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما نے ایک ہزار، ذوالکلاع حمیری رضي الله عنه نے آٹھ ہزار اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار غلاموں کو رہائی بخشی۔
ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں، جن میں حضرت ابو بکر صديق اور حضرت عثمان غنى رضي الله عنهما کے نام بہت ممتاز ہیں۔ صحابہ کرام میں خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے غلام آزاد کرنے کا ایک عام شوق تھا، جس کی بدولت یہ حضرات کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں کو بھی غلام آزاد کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔
زکوٰۃ کے متعدد مصارف میں سے ایک غلام کی رہائی میں صرف کرنا ہے. اس مصرف کو قرآن کریم نے ’’ وفی الرقاب ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ، ’’ رقبہ ‘‘ کے معنی گردن کے ہیں ، یعنی اگر کسی کی گردن پھنسی ہوئی ہو؛ تو اس کو چھڑایا جائے ، یہ عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے اور اس سے بھی ’ غلام ‘ مراد ہیں ، مطلب یہ ہے کہ غلام کی مدد کی جائے کہ وہ اپنے آپ کو آزاد کراسکیں ، یا ان کو خرید کر آزاد کردیا جائے ، جیسا کہ وضاحت آچکی ہے کہ اسلام بنیادی طورپر انسانوں کو غلام بنانے یا غلام بنائے رکھنے کا قائل نہیں ہے ؛ لیکن رسول اللہ جس دور میں تشریف لائے ، اس وقت بیک جنبشِ قلم غلامی کو ختم کرنا ممکن نہیں تھا ؛ اس لئے آپ نے غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی ، مختلف ایسی تدبیریں مقرر کیں کہ غلاموں اور باندیوں کی آزادی کا راستہ فراہم ہوجائے ، جن غلاموں کو آزادی حاصل کرنے میں پیسوں کی ضرورت تھی ، ان کی مدد کرنے کی تلقین فرمائی ، جنگوں میں جو لوگ قید ہوکر آتے تھے ، عام طورپر انھیں غلام بنالیا جاتا تھا ، آپ نے ان کو کبھی یوں ہی رہا کردیا ، کبھی فدیہ لے کر رہا کیا ، کچھ لوگوں کو جنگی قیدیوں کے تبادلہ میں رہا فرمایا اور بہت کم قیدی تھے جن کو غلام اور باندی بنایا گیا ؛ کیوںکہ ان کو آزاد کردینا مصلحت کے خلاف تھا ؛سابق دور سے چلے آرہے غلاموں کاسلسلہ؛ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً موقوف ہوگیا؛ غلام سب کے سب رہا ہوچکے تھے .
اسلام کی ان بالواسطہ تدابیر کا اثر یہ ہوا کہ غلامی کا جو رواج نامعلوم تاریخ سے موجود تھا ، وہ دنیا سے ختم ہوگیا ؛ البتہ اب بھی مغرب نے غلام بنانے کا نظام باقی رکھا ہے ، پہلے افراد کو غلام بنایا جاتا تھا اور اب وہ پوری پوری قوم کو غلام بناتے ہیں ۔ طالع آزما ظالم حکمرانوں کی ہوس ملک گیری کے نتیجے میں پوری پوری آبادی کو غلام بنالینے کی نامسعود روایت تاریخ کے تمام مراحل میں کسی نہ شکل میں جاری رہی.اور اقوام مغرب نے اس سلسلے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے دنیا بھر میں رواج دینے کی کوشش کی ہے. اور دنیا کو مجبور کیا کہ وہ ان کی اقتصادی، تہذیبی اور سیاسی غلامی کو قبول کریں.
اسلام کے نظام عدل نے ایسے غلام اقوام اور مجبور ومقہور افراد کو حوصلہ دینے کا کام کیا جو ظلم کی چکی میں پس رہے تھے .
اسلام کے نظام عدل و مساوات کے نتیجے میں غلاموں میں انسانیت و آدمیت کا احساس باقی رہا ؛ جب بھی امید کی کرن نظر آئی انہوں نے غلامی کی آہنی زنجیروں کو اپنے عزم وحوصلہ کی قینچی سے کاٹنا شروع کر دیا. خاص طور پر اسلام کے شیدائیوں اور خدائے وحدہ لاشریک لہ کے پرستاروں نے تاریخ کے زیادہ تر مراحل میں تمام فرضی آقاؤں کی جبری غلامی کی چادر کوتار تار کر کے رکھ دیا۔
ہندستان کے پس منظر میں بات کریں تو یہاں کے مسلمانوں کی آمد یہاں کے قدیم باشندوں کے ہزاروں سالہ غلامی کے خاتمے کا نوید ثابت ہوئی، جنھیں داس، شودر اور اچھوت بناکر انسانوں کی غلامی پر مجبور کیا گیا تھا؛ انھیں جبری غلامی سے بتدریج نجات ملی.. مسلم حکمرانوں کے زیر سایہ انھیں آزاد زندگی بسر کرنے کے مواقع ملے.. پھر اخیر عہد میں جب غیر وں کی سازش اور اپنوں کے اختلافات کے نتیجے میں مغلیہ سلطنت کمزور سے کم زور تر ہوگئی. “حکومت شاہ عالم از دہلی تا پالم” رہ گئی. برطانوی سامراج نے اپنے پنجہ استبداد کومضبوط کرلیا اور مختلف سازشوں اور اپنوں کی بے وفائی وغداری کے نتیجے میں پورے ہندستان پر غیرملکی سفید فام ظالم حکمرانوں کا تسلط ہوگیا. ہندستانی عوام کی آزادی کو سلب کر کے انہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا. ایسے حالات میں غلامی کے اس مہیب سایہ کو چھانٹنے کے لیے اور باشندگان وطن کو سامراج کے ظلم وجور سے بچانے کے لیے انگریزوں کے ناجائز قبضہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ یہ اسلام کے شیدائی محمد عربی ﷺ کے دیوا نے علماء کرام اور بزرگان دین تھے. اس سلسلے میں سب سے پہلا اقدام یہ کیا گیا کہ حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ بن عبدالرحیم محدث دہلوی کے فرزند ارجمند سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے سن 1806 میں ہندستان کے دارالحرب ہونے اور انگریزوں کے خلاف جہاد کی فرضیت کافتوی صادر فرمایا ۔
ان کے فتوی نے تمام مسلمانوں اور بالخصوص علماۓ کرام کے تن بدن کو جوش و جذ بہ اور حوصلہ اور ولولہ سے بھر دیا۔
انگریز سامراج کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت کی لہر پیدا کر دی اور اس فتویٰ کے نتیجے میں علماء کرام کی ایک بہت بڑی تعداد تیار ہوئی جنہوں نے ایک خاص دینی فریضہ سمجھ کر انگریزوں کے خلاف جہاد کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی تعداد اور ان کے جوش و ولولہ میں اضافہ ہوتا چلا گیا. ہندستان کی جنگ آزادی میں جن علما کرام نے سرگرم حصہ لیا اور اس میں قائدانہ رول ادا کیا ان کی ایک طویل فہرست ہے.
ہم پر لازم ہے کہ ان تمام بزرگوں کو یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر خاص طور پر یاد رکھیں اور الگ الگ خطوں کے اہل علم ان علاقوں سے وابستہ مجاہدین آزادی کی قربانیوں اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے رہیں. ایسے حالات میں جب آزادی کی عظیم نعمت کو مختلف حیلے بہانے سے سلب کرنے یا محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اقلیتوں پر اکثریت کی غلامی مسلط کر نے کی سازشیں رچی جارہی ہیں، تو آزادی کے اس شجر سایہ دار کی حفاظت اور ضروری ہوجاتی ہے.. اور جن مقاصد کے لیے ہمارے اسلاف نے قربانیاں دی تھیں، ان کی تکمیل کے لیے عمل پیہم کی ضرورت ہے.
نکلی نہیں ذہنوں سے ابھی خوئے غلامی
آزاد وطن اتنا بھی آزاد نہیں ہے.
بندہ خالد نیموی قاسمی صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز دوحہ ،قطر
9905387547